کاربر:Jafari/صفحه تمرین

نسخهٔ تاریخ ‏۱۱ اوت ۲۰۲۳، ساعت ۱۷:۲۶ توسط Jafari (بحث | مشارکت‌ها)
(تفاوت) → نسخهٔ قدیمی‌تر | نمایش نسخهٔ فعلی (تفاوت) | نسخهٔ جدیدتر ← (تفاوت)
حضرت قاسم علیہ السلام کی شادی کی داستان

حضرت قاسم ابن الحسن المجتبی ع کی شادی

سن اکسٹھ ہجری کے یوم عاشورا میں پیش آئے واقعہ کربلا میں حضرت قاسم ابن الحسن ع کی شادی کی رخداد ہر سال محرم کے مقدس مہینے میں بحث و گفتگو کا ای محور بنا رہتا ہے کوئی اثبات اور کوئی عدم اثبات کی دلیلوں کے انبار لگائے بیٹھتے ہیں۔ کسی بھی عالم یا مرثیہ خوان ذاکر کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس حادثہ کے اقرار یا انکار سے قوم میں کتنا نقصان ہو رہا ہے ایک ہی ملت گرہوں اور مختلف ٹولوں میں تقسیم ہو کر رہ جاتی ہے خلاصہ یہ کہ ایسی لا حاصل بحث و تکرار سے قومی خلفشار کے سوا کوئی چیز ہاتھ نہیں آتی ہے۔ اس واقعہ کا ذکر دسویں صدی ہجری میں پہلی بار ملا حسین کاشفی کے وسیلہ سے سامنے آیا ہے۔ اس کے بعد کاشفی کی پیروی کرتے ہوئے ، کچھ مقتل نویسوں نے اپنی کتابوں میں اس حادثہ تذکرہ کیا ہے۔ جبکہ بعض بزرگوں نے اسے واقعہ کربلا میں تحریف سمجھتے ہوئے قاسم بن الحسن کی شادی کو منگھڑتھ، ذہنی اختراع اور دشمن کی سازش اور اسرائلیات قرار دیا ہے۔ جبکہ بعض کا خیال ہے کہ یہ کہانی امام حسن مجتبی (ع) کے ایک اور بیٹے حسنِ مُثَّنَی کی شادی کی داستان ہے جو تقارب زمان کی وجہ سے قاسم بن الحسن ع سے منسوب کی گئی ہے۔ حضرت قاسم ع شہادت کے وقت سنِ بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے تھے [۱]۔

حضرت قاسم ع کے ازدواج کی داستان

کہا جاتا ہے کہ عاشورا کے دن حضرت قاسم ع نے اپنے چچا امام حسین (ع) سے مقتل جانے کی اجازت مانگی ، لیکن امام حسین (ع) نے اپنے بھائی نشانی قاسم ع کی کمسنی کی وجہ سے اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ قاسم اس واقعے سے دل برداشتہ ہوئے اسی دوران ان کو وہ بازو بند یاد آیا جو ان کے والد امام حسن مجتبیٰ (ع) نے ان کے بازو پر باندھ دیا تھا اور قاسم تلقین کی تھی کہ جب غم و اندوہ میں مبتلا ہوجاؤ اور اسے رہائی کا کوئی راستہ نظر نہیں آئے اس موقع پر بازوبند کو کھول کر اس میں موجود راہ حل پر عمل کرنا۔ قاسم نے تعویذ نما بازوبند کھولا ، دیکھا کہ اس میں امام حسن مجتبی ع نے وصیت کی ہے کہ کربلا میں اپنے چچا امام حسین ع پر اپنی جان قربان کر دینا۔ قاسم نے خوشی سے اپنے والد کا پیغام اپنے چچا امام حسین (ع) تک پہنچایا اور اسے اپنے والد کی مرضی سے آگاہ کرایا۔ امام نے اپنے بھائی کی ہاتھ کی تحریر دیکھ کر روتے ہوئے قاسم سے کہا: تمہارے والد نے مجھے سے کی تھی کہ میں اپنی ایک بیٹی کا نکاح تم سے کروں اس کے بعد حضرت عباس (ع)، عون اور حضرت زینب (ع) سے قاسم (ع) کے عقد کے مقدمات فراہم کرنے کے لیے کہا۔ قاسم کی شادی ہوئی اس کے بعد مقتل کی جانب روانہ ہوئے۔ [۲] ملا حسین کاشفی نے اپنی گزارش میں ابوالمفاخر رازی کی ایک نظم کا حوالہ دیاہے۔ (۳) ابوالمفاخر، فارسی زبان کے شاعر (۵۵۰) ہجری سے پہلے، سلجوقی دورہ حکومت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ (۴)

جن کتابوں میں حضرت قاسم (ع) کے ازدواج کا ذکر آیا ہے ان میں سے بعض کتابوں میں امام حسین (ع) کی جس دختر نیک اختر سے قاسم (ع) کی دلہن کی نسبت دی گئی ہے اس کانام زبیدہ خاتون ہے [۵] اور بعض دوسری کتابوں میں فاطمہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔(۶)

حضرت قاسم ع کے نکاح کی داستان نقل کرنے والے علماء

بعض علماء کے کہنے کے مطابق حضرت قاسم (ع) کی شادی کی داستان کا ذکر کرنے والا پہلا شخص *ملا حسین واعظ کاشفی* (متوفی 910 ھ) روضه الشہداء میں تھا۔ [۷] اس کے بعد اسی کتاب سے دوسرے منابع میں نقل کی گئی ہے۔ منتخب طریحی؛ العبادات فاضل دربندی(۸) محرق القلوب نراقی (۹) تذکرہ الشہداء ملا حبیب شریف کاشانی اور مدینه المعاجز بحرانی (۱۰) میں روضه الشهداء سے ہی مذکورہ روایت وارد ہوئی ہے۔[۱۱]

ابوالحسن شعرانی نے کتاب "دَمعُ السَّجُود" میں کہا ہے کہ ہماری نظر میں حضرت قاسم ابن الحسن (ع) کی شادی سے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ ملا حسین کاشفی نے اپنی کتاب روضه الشهداء میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور جناب کاشفی ماہر فن، عالم متبحر اور جامع شخصیت کے حامل تھے۔ یہ کہنا کہ کربلا کے خون آشام ماحول میں شادی اور نکاح کا ہونا بہت بعید نظر آرہا ہے، صحیح نہیں ہے کیونکہ ائمہ معصومین ع کے افعال و اعمال کی مصلحتیں ہمارے درک و فہم سے بہت دور ہیں۔(۱۲) محمدحسین غروی اصفہانی (متوفی ۱۳۶۱ھ) جو علامہ کومپانی کے لقب سے مشہور ہیں نے اپنی شاعری کے مجموعہ میں حضرت قاسم ع کے مرثیہ میں آپ کی شادی کا ذکر کیا ہے۔ (۱۳)

مخالف علماء کی نظر

بعض نامور شیعہ علماء جیسے علامہ مجلسی[۱۴] محدث نوری [۱۵] اور شیخ عباس قمی [۱۶] نے درجہ بالا دیدگاه کو رد کرتے ہوئے کہا کہ حضرت قاسم ع کی شادی کا تذکرہ کسی قابل اعتماد اور معتبر کتاب میں موجود نہیں ہے لہذا اس داستان کو قبول نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ [۱۷]

بعض معتبر منابع اس واقعہ کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قاسم ع کمسن تھے وہ کربلا میں بلوغت کی حدود میں داخل نہیں ہوئے تھے اور نا ہی ان کی عمر، ازدواج کی عمر تھی۔ [۱۸]

استاد مرتضی مطہری نے بھی اس ماجرا کو جھوٹ پر مبنی داستان قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں یوم عاشورا میں امام حسین علیہ السلام کے پاس نماز پڑھنے کے امکانات میسر نہیں تھے انہوں نے اس خونین ماحول میں نماز خوف پڑھی، پس یہ کیونکر امکان پذیر ہوتا کہ حسین ع اپنے بھائی کے لختہ جگر قاسم ع کے لیے حِجلہ عروس (شادی کے ساز و سامان) سجاتے! (۱۹)

علامہ سید عبدالرزاق موسوی مقرم ، قاسم کی شادی کو مسترد کرتے ہوئے ، یقین رکھتے ہیں کہ کتاب *منتخب* کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور حضرت قاسم ع سے منسوب ازدواج کی داستان کو اس میں شامل کیا گیا۔ [۲۰]


حسن مُثَنَّی کے ساتھ اشتباه

بعض علماء کا ماننا ہے کہ قاسم کی شادی کا واقعہ، حسن مُثَنَّی  کی شادی کے ساتھ خلط کردیا گیا ہے۔ [۲۱] قاضی طباطبائی نے احتمال دیا ہے کہ حسن مثنی کا عاشورا کے واقعے سے قبل سن ساٹھ ہجری (۶۰ ھ) میں امام حسین (ع) کی بیٹی فاطمہ کے ساتھ ازدواج ہوا تھا۔ چنانچہ حسن مُثَنَّی اپنی اہلیہ فاطمہ کے ساتھ کربلا میں موجود تھے۔ [۲۲] لیکن ملا حسین کاشفی نے غلطی سے حسن مثنی کی شادی کو قاسم کے بارے میں ثبت و ضبط کرکے نقل کردیا اور دونوں بھائیوں کے قضیہ میں اشتباہ کر دیا گیا ہے۔ [۲۳] تاریخی شواہد کی بنیاد پر حسن مثنی نے امام حسین (ع) کی بیٹیوں میں سے ایک کی خواستگاری کی تھی [۲۴] اور امام حسین (ع) نے اپنی بیٹی فاطمہ سے ان کی شادی کر دی تھی [۲۵] ابن فندق بیہقی کے مطابق نکاح کی یہ تقریب امام حسین (ع) کی شہادت کے سال میں واقعہ ہوئی تھی۔[۲۶]


حوالہ جات

۱) مجلسی، جلاء العیون، ۱۳۸۲ش، ص۶۷۵، پیشوایی، مقتل جامع، ۱۳۹۵ش، ج۲، ص۶۱۹.

۲) کاشفی، روضه الشهداء، نوید اسلام، ص۴۰۱

۳) کاشفی، روضه الشهداء، نوید اسلام، ص۴۰۲

۴) دایره المعارف بزرگ اسلامی، ج۶، ص۲۷۷

۵ ) رکن الدین حسینی، بحرالانساب، ص۲۴

۶) قمی، منتهی الآمال، ۱۳۹۰ش، ج۱، ص۸۸۹.

۷) پیشوایی، مقتل جامع، ۱۳۹۵ش، ج۲، ص۵۵۵.

۸) فاضل دربندی، اکسیر العبادات، ج۲، ص۳۰۵

۹) نراقی، محرق القلوب، ۱۳۸۸ش، ص۴۱۰

۱۰)بحرانی، مدینه المعاجز، ج۳، ص۳۶۸.

۱۱) پیشوایی، مقتل جامع، ۱۳۹۵ش، ج۲، ص۵۵۵.

۱۲) شعرانی، دمع السجوم، ۱۳۸۵ش، ص۲۷۸-۲۷۷.
۱۳) غروی اصفهانی، دیوان کمپانی، ۱۳۹۷ش، ص۱۴۲.
۱۴) مجلسی، جلاء العیون، ۱۳۸۲ش، ص۶۷۶.
۱۵) نوری، لؤلؤ و مرجان، ص۱۹۳.
۱۶) قمی، منتهی الآمال، ۱۳۹۰ش، ج۱، ص۸۸۹.
۱۷) محلاتی، فرسان الهیجاء، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۳۱؛ 

مطهری، حماسه حسینی، انتشارات صدرا، ج۱، ص۲۷-۲۸.

۱۸) مقرم، مقتل الحسین(ع)، ۱۴۲۳ق، ص۲۶۴؛ قاضی طباطبایی، تحقیق دربارۀ اول اربعین حضرت سیدالشهداء، ۱۳۸۳ش، ص۳۷۸.
۱۹)مطهری، حماسه حسینی، انتشارات صدرا، ج۱، ص۲۷-۲۸
۲۰) مقرم، مقتل الحسین(ع)، ۱۴۲۳ق، ص۲۶۴
۲۱) محلاتی، فرسان الهیجاء، ۱۳۹۰ق، ج ۲، ص۳۱؛ قاضی  طباطبایی، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سید الشهدا(ع)، ۱۳۸۳ش، ص۳۷۷.
۲۲) قاضی طباطبایی، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سید الشهدا(ع)، ۱۳۸۳ش، ص۳۷۷
۲۳) قاضی طباطبایی، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سید الشهدا(ع)، ۱۳۸۳ش، ص۳۷۸
۲۴) ابن جوزی، المنتظم، ج۷، ص۱۸۳
۲۵) مفید، ارشاد، ۱۳۸۰ش، ص۳۶۶

۲۶) ابن فندق، لباب الانساب، کتابخانه آیت الله مرعشی نجفی، ص۳۸۵.