کاربر:Saeedi/صفحه تمرین: تفاوت میان نسخه‌ها

۲۰۴٬۱۰۸ بایت اضافه‌شده ،  ‏۲۷ دسامبر ۲۰۲۳
بدون خلاصۀ ویرایش
بدون خلاصۀ ویرایش
بدون خلاصۀ ویرایش
 
(۱۸ نسخهٔ میانیِ ایجادشده توسط همین کاربر نشان داده نشد)
خط ۱: خط ۱:
'''سید رضا موسوی''' جو سید رضی سے معروف تھے۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھ جنرل سید رضی موسوی شام میں مقاومتی تنظیموں کے لاجسٹک سپورٹ کے انجارج تھے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے دمشق میں اسرائیلی حملے میں اپنے اعلی کمانڈر کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو تاوان ادا کرنا ہوگا۔
== شہادت ==
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شام کے دارالحکومت دمشق میں سپاہ پاسداران انقلاب کے ممتاز فوجی مشیر سید رضی موسوی اسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔
اس سے پہلے شام کے دارالحکومت دمشق کے علاقے زینبیہ میں صہیونی حکومت کے فضائی حملے کی خبریں موصول ہوئی تھیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھ جنرل سید رضی موسوی شام میں مقاومتی تنظیموں کے لاجسٹک سپورٹ کے انجارج تھے۔
سپاہ پاسداران انقلاب نے صہیونی حکومت کے اس وحشیانہ حملے کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کو اس حملے کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔
شہید رضی موسوی سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے سابق کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
== ایرانی صدر رئیسی کا بیان ==
ایرانی صدر رئیسی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ شہید رضی موسوی ایک بہادر کمانڈر اور شہید قاسم سلیمانی کے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔
شام کے دارالحکومت دمشق کے علاقے زینبیہ میں اسرائیل کے فضائی حملے میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی کمانڈر اور فوجی مشیر سید رضٰ موسوی شہید ہوگئے ہیں۔
صدر آیت اللہ رئیسی نے واقعے کے بعد اپنے تعزیتی پیغام میں ایرانی قوم اور سپاہ پاسداران کے ساتھ تعزیت کی ہے۔
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ شہید رضی موسوی ایک بہادر کمانڈر اور شہید قاسم سلیمانی کے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔ غاصب صہیونی حکومت نے شام میں مقاومت کو فوجی مشاورت اور حضرت زینب کے روضے کی حفاظت کے دوران ان کو شہید کردیا۔
صدر رئیسی نے کہا کہ جنرل موسوی کی شہادت ثابت کرتی ہے کہ صہیونی حکومت نہایت کمزور اور حواس باختہ ہوچکی ہے۔ اسرائیل کو شہید موسوی پر حملے کی قیمت ادا کرنا پڑے گا۔
== شہادت کی تفصیلات ==
دمشق میں تعیینات ایرانی سفیر حسین اکبری نے مہر نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید جنرل موسوی شہید قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل موسوی آج دوپہر دو بجے ایرانی سفارت خانہ آئے تھے جہاں وہ اپنے دفتری فرائض انجام دینے کے بعد زینبیہ کے علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ کی جانب چلے گئے تھے۔ حسین اکبری نے مزید کہا کہ شہید موسوی کی شریک حیات سکول میں پڑھاتی ہے اس لئے حملے کے وقت گھر پر موجود نہیں تھی۔ تقریبا سہ پہر 4 بج کر 20 منٹ پر صہیونی حکومت نے ان کی رہائش گاہ پر تین میزائل فائر کئے۔ میزائل لگنے کے بعد رہائش گاہ کی عمارت مکمل تباہ ہوگئی اور شہید موسوی کی لاش صحن میں پڑی ہوئی تھی۔
ایرانی سفیر نے شہید موسوی کے بارے میں کہا کہ وہ ایرانی سفارتخانے میں سفارتکار اور سیکنڈ کونسلر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ان کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا اس وجہ سے ان پر حملہ 1961 اور 1973 کی بین الاقوامی کنونشن کی روشنی میں جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
اکبری نے مزید کہا کہ صہیونی حکومت نے شہید موسوی پر حملہ کرکے جنایت کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ حملہ شام کی خودمختاری کی بھی مکمل خلاف ورزی ہے کیونکہ سفارتکاروں کو تحفظ فراہم کرنا میزبان ملک کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید جنرل موسوی شام میں فوجی مشیر کی ذمہ داری بھی انجام دیتے تھے۔ وہ شام میں سپاہ پاسداران انقلاب کے قدیمی مشیروں اور شہید جنرل سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
== ایرانی و‌زیر خارجہ ==
ایرانی وزیرخارجہ نے شہید جنرل موسوی پر حملے کے ردعمل میں تل ابیب کو سخت جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق صہیونی حکومت کی جانب سے شام کے دارالحکومت دمشق میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی کمانڈر میجر جنرل سید رضی موسوی پر حملے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر انہوں نے لکھا ہے کہ جنرل موسوی کی شہادت پر ایرانی اور شامی قوم اور شہید کے لواحقین کو تعزیت پیش کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ شہید موسوی نے کئی سال شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے قاتل صہیونی حکومت کو پیغام دیتے ہوئے لکھا ہے کہ تل ابیب ایران کے سخت ردعمل اور جواب کا منتظر رہے۔
یاد رہے کہ شہید میجر جنرل سید رضی موسوی شہید حاج قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور شام میں کئی سال مقاومت کے لئے اہم خدمات انجام دیں۔
== ایرانی جوانوں کااحتجاج ==
جنرل موسوی پر حملہ، ایرانی جوانوں کا قومی سلامتی کونسل کے دفتر کے باہر صہیونی حکومت کے خلاف احتجاج
مظاہرین نے جنرل موسوی پر ہونے والے حملے کو بزدلانہ اور شرمناک قرار دیتے ہوئے ایرانی حکومت سے اپیل کی کہ اس حملے کا دندان شکن جواب دیا جائے۔
مہر نیوز کے نامہ نگار کے مطابق، شام میں صہیونی حکومت کے دہشت گردانہ حملے میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی کمانڈر میجر جنرل سید رضی موسوی کی مظلومانہ شہادت کے بعد ایرانی دارالحکومت تہران میں طلباء اور شہریوں کی بڑی تعداد میں احتجاج کیا۔
تفصیلات کے مطابق سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی قومی سلامتی کونسل کے دفتر کے باہر جمع ہوکر غاصب صہیونی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
مظاہرین نے جنرل موسوی پر ہونے والے حملے کو بزدلانہ اور شرمناک قرار دیتے ہوئے ایرانی حکومت سے اپیل کی کہ اس حملے کا دندان شکن جواب دیا جائے۔
مظاہرے میں شریک بعض کفن پوش جوانوں نے ہاتھوں میں حزب اللہ کے پرچم تھامے ہوئے تھے۔
== قومی سلامتی کمیشن کے غیر معمولی اجلاس ==
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان نے جنرل رضی موسوی کی شہادت کے بعد کمیشن کے غیر معمولی اجلاس کا اعلان کیا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ابوالفضل عموئی نے کہا کہ جنرل سید رضی موسوی کی شہادت کے بعد ملک کے قومی سلامتی کمیشن کے غیر معمولی اجلاس کے بارے میں میڈیا کو آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتے قومی سلامتی کمیشن کے اجلاس میں ہم شہید سید رضی موسوی کے خلاف صیہونی حکومت کے دہشت گردانہ حملے پر بات کریں گے اور ملک کی وزارت خارجہ، ملٹری اور انٹیلی جنس کے حکام  اس دہشت گردانہ واقعے کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیں گے۔
ایرانی پارلیمنٹ کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان نے مزید کہا کہ  صیہونی حکومت کے اس وحشیانہ عمل کا یقینی طور پر سخت جواب دیا گا اور جیسا کہ فوج اور ملکی حکام نے کہا اسرائیل کو اس وحشیانہ اقدام کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
صیہونی رجیم نے دمشق کے علاقے زینبیہ میں جنرل موسوی کی رہائش گاہ کو ٹارگٹ کرتے ہوئے مقبوضہ گولان سے 3 میزائل داغے جس کے نتیجے میں سپاہ پاسداران انقلاب کا یہ کمانڈر شہید ہوگیا۔
جائے وقوعہ پر موجود افراد کے مطابق اس دہشت گردانہ حملے کے وقت دیگر افراد بھی وہاں موجود تھے تاہم اس دہشت گردانہ حملے میں شہید اور زخمی ہونے والوں کی صحیح تعداد ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔
== میجر جنرل عبدالرحیم موسوی ==
ایرانی مسلح افواج کے چیف کمانڈر نے اسرائیل کی جانب سے شام میں ایران کے ایک سینئر فوجی مشیر کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے مزاحمت کے خلاف جعلی رجیم کی مایوسی قرار دیا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے اپنے پیغام میں دمشق کے ایک محلے میں اسرائیلی فضائی حملے میں سینئر ایرانی کمانڈر سید رضی موسوی کی شہادت پر ان کے اہل خانہ، مزاحمتی فورسز اور سپاہ پاسداران انقلاب سے تعزیت کا اظہار کیا۔
انہوں نے لکھا کہ "غزہ کے عوام اور مزاحمتی محاذ کے ہاتھوں غاصب رجیم کی پے در پے شکستوں کے بعد اس رجیم کی بے چارگی اور مایوسی ایک مخلص مجاہد کی شہادت سے ایک بار پھر عیاں ہو گئی ہے۔"
== ایرانی آرمی چیف ==
ایرانی آرمی چیف نے شہید ہونے والے جنرل موسوی کو شام میں سپاہ کے سینئر فوجی مشیر اور انسداد دہشت گردی کے اعلیٰ کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کے ساتھی کے طور پر بھی بیان کیا۔
جنرل سلیمانی کو 3 جنوری 2020 کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک امریکی ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ وہ خطے خاص طور پر عراق اور شام میں امریکہ اور اسرائیل کے بنائے ہوئے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف جنگ میں  کلیدی کردار کی وجہ سے انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
بریگیڈئیر شہید رضی موسوی شام میں ایران کے فوجی مشاورتی مشن میں خدمات انجام دیتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔
یہ مشن 2014 میں شام کی مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچا جب عرب ملک نے خود کو  دہشت گرد تنظیم داعش کی گرفت میں پایا۔
جنرل سلیمانی کی قیادت میں اس مشن نے شام میں دہشت گردی کے خاتمے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہوئے بالآخر 2017 کے میں داعش کا صفایا کیا۔
ایران کی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کو شام میں ایرانی مشیر جنرل سید رضی موسوی کے قتل کی قیمت چکانی پڑے گی۔
== مجلس وحدت مسلمین پاکستان ==
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی نے دمشق میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے مشیر میجر جنرل سید رضی موسوی پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کا فضائی حملہ شام کی داخلی خود مختاری پر حملہ ہے، جس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے جنرل سید رضی موسوی کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان شہداء کے خون نے اسرائیل کی نابودی کے عمل کو سرعت بخشی ہے۔ بلاشبہ ان جرائم کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے اپنے ایک پیغام میں جنرل سید رضی موسوی کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا۔
غاصب صیہونی حکومت کے بزدلانہ حملے میں سپاہ اسلام کے قابل فخر کمانڈر، شہید قدس جنرل قاسم سلیمانی کے دیرینہ دوست اور ساتھی شہید سید رضی موسوی کی شہادت نے صیہونی رجیم کی ایک بار پھر شام کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو برملا کر کے تباہی کے دہانے پر کھڑی اس دہشت گرد رجیم کے چہرے سے نقاب نوچ لیا ہے۔
بریگیڈیئر جنرل موسوی شام کی قانونی حکومت کی سرکاری دعوت پر فوجی مشیر کے طور پر اس ملک میں موجود تھے اور دہشت گردی سے نمٹنے کا طویل تجربہ رکھتے تھے۔
صیہونی حکومت تمام تر دعوؤں کے باوجود طوفان الاقصی آپریشن کے بعد تقریباً تین ماہ کے دوران غزہ کے رہائشی مراکز اور ہسپتالوں پر وحشیانہ حملے کے علاوہ کوئی ٹھوس فوجی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اب وہ کوشش کر رہی ہے کہ اس خود ساختہ دلدل سے نکلنے اور عالمی رائے عامہ کی توجہ اپنے جرائم سے ہٹانے کے لئے تنازعات کا دائرہ خطے تک پھیلائے تاکہ اپنے اتحادیوں کو اس معرکے میں پھنسا کر اپنی نابودی کا علاج کر سکے۔
شہید جنرل سید رضی موسوی کا قتل بھی اسی فریب کارانہ فریم ورک میں کیا گیا ہے لیکن جرائم پیشہ صیہونی حکام حسب سابق اسٹریٹجک غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ ابھی تک حالیہ واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران سے نہیں نکل پائے ہیں تو اس شہید کے قتل کی اسٹریٹجک غلطی کے مضمرات سے کبھی چھٹکارہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔
حالیہ جنگی صورت حال نے اس قاتل رجیم کو اس مرحلے پر پہنچا دیا ہے کہ اس کا کوئی بھی دہشت گردانہ اور جنونی اقدام نہ صرف اس کی بنیادوں کو ہلا دے گا بلکہ اس کے خلاف محور مقاومت کا گھیراو پہلے سے زیادہ تنگ ہو جائے گا۔
اسلام کے اس قابل فخر سپوت کی شہادت پر امام زمان ع، رہبر معظم انقلاب اور شہید کے خاندان کی خدمت میں تعزیت عرض ہے اور
مجھے یقین ہے کہ ان شہداء کا خون غاصب اسرائیل کے زوال کا باعث بنے گا اور بلاشبہ اس رجیم کے وحشیانہ جرائم کا بھر پور جواب دیا جائے گا۔
شام میں شہید جنرل موسوی پر حملے کے بعد ایرانی وزیردفاع نے ردعمل میں کہا ہے کہ اسرائیل کو مناسب وقت پر سخت جواب دیا جائے گا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیردفاع بریگیڈئیر جنرل محمد رضا آشتیانی نے شام کے دارالحکومت دمشق میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی کمانڈر بریگیڈئیر جنرل سید رضی موسوی پر اسرائیلی قاتلانہ حملے کے بعد تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ ایران غاصب صہیونی حکومت کو مناسب وقت پر دندان شکن جواب دے گا۔
انہوں نے تاکید کی کہ صہیونی حکومت نے بزدلانہ حملہ کیا ہے جس کا مناسب اور صحیح موقع پر جواب دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی کمانڈر بریگیڈئیر جنرل سید رضی موسوی کو دمشق کے علاقے زینبیہ میں صہیونی حکومت نے میزائل حملہ کرکے شہید کیا تھا۔
شہید جنرل موسوی نے کئی سال تک شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ شام اور عراق میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تھی۔
غاصب صہیونی حکومت کا فضائی حملہ شام کی داخلی خود مختاری پر حملہ ہے، ایم ڈبلیو ایم پاکستان
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی نے دمشق میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے مشیر میجر جنرل سید رضی موسوی پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کا فضائی حملہ شام کی داخلی خود مختاری پر حملہ ہے، جس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے، شہید جنرل موسوی شہید قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، انہیں گھر پر میزائل حملے میں شہید کیا گیا ہے، وہ ایرانی سفارتخانے میں بحیثیت سفارتکار اور سیکنڈ کونسلر کام کرتے تھے، ان کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا، ان پر حملہ 1961ء اور 1973ء کے بین الاقوامی کنونشن کی سنگین خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
انہوں نے کہا عالمی مجرم اسرائیل عالمی قوانین کی کھلم کھلا دھچیاں اڑا رہا ہے، غاصب اسرائیلی رجیم کی ان مجرمانہ کارروائیوں سے صاف ظاہر ہے کہ صہیونی ریاست شدید بوکھلاہٹ اور خوف کا شکار ہو کر اس طرح کے جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے، صہیونی حکومت نے شہید موسوی پر حملہ کر کے جنایت کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ حملہ شام کی خودمختاری کی بھی مکمل خلاف ورزی ہے کیونکہ سفارتکاروں کو تحفظ فراہم کرنا میزبان ملک کی ذمہ داری ہے، شہید جنرل موسوی شام میں فوجی مشیر کی ذمہ داری بھی انجام دیتے تھے۔ وہ شام میں سپاہ پاسداران انقلاب کے پرانے مشیروں اور شہید جنرل سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے <ref>صہیونی حکومت کو شہید جنرل موسوی پر حملے کی قیمت ادا کرنا پڑے گا، صدر رئیسی [https://ur.mehrnews.com/news/1920842/%D8%B5%DB%81%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%A9%D9%88-%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D8%AC%D9%86%D8%B1%D9%84-%D9%85%D9%88%D8%B3%D9%88%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D9%8 mehrnews.com]</ref>۔
'''کلب صادق''' کلب صادق ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر،مفکر،مصلح، ماہر تعلیم اور مبلغ تھے۔وہ لکھنؤ، کے ایک انتہائی معزز شیعہ خاندان المعروف خاندان اجتہاد ۔آپ کے والد کلب حسین اپنے وقت کے مشہور عالم دین تھے۔مولانا کے بھائی مولانا کلب عابد بھی اسلامی اسکالر اور مبلغ تھے۔ان کے بیٹے مولانا کلب جوادہیں جو مولانا کلب صادق کے بھتیجے ہیں۔ آپ کو ہندو اور مسلمانوں، شیعوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ایک بڑے داعی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
== سوانح عمری ==
کلب صادق 22 جون 1939ء میں لکھنؤ کے معروف اور علمی خانوادے، خاندان اجتہاد میں پیدا ہوئے۔ اس خاندان کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ اس نسل میں کئی ایک نوابغ اور علمی شخصیات پیدا ہوئیں۔ یہ خاندان سبزوار سے ہندوستان کے علاقے جائس میں آکر آباد ہوا۔ اسی خاندان کے بزرگ سید نصیرالدین کے سبب علاقے کا نام نصیر آباد پڑ گیا <ref>سید اسد عباس، ڈاکٹر کلب صادق خاندانی پس منظر اور سماجی خدمات، i[https://www.islamtimes.org/ur/article/901380 slamtimes.org]</ref>۔
== تعلیم ==
آپ ۲۲؍جون 1939ء کو پیدا ہوئے تھےاپ کی ابتدائی تعلیم مشہور مدرسہ سلطان المدارس میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے اور وہاں انھوں نے عربی ادب میں پی․ایچ․ڈی․ کی۔ عربی کے علاوہ آپ کو اردو،فارسی،انگریزی اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اسلامی تعلیمات سے متعلق لکچر دینے کے لیے انھوں نے پوری دنیا کا سفر کیا ہے۔ان کے پرستاروں میں تمام مذاہب کے پیروکار شامل ہیں۔ آپ مسلمہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے کے باوجود تمام اسلامی فرقوں میں یکساں طور پر قابل احترام دیکھے جاتے ہیں اور بھارت کی سب سے بڑی سماجی و مذہبی تنظیم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔
آپ کو ہندو اور مسلمانوں، شیعوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ایک بڑے داعی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لکھنؤ شیعوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ تشددکے لیے جانا جاتا تھا خاص طور پر محرم کے دنوں میں۔لیکن ڈاکٹر کلب صادق کے اقدام اور مستقل کاوشوں سے دونوں مسالک کے مابین اعتماد سازی کے متعدد اقدام اٹھائے گئے ہیں اور خدا کے فضل و کرم سے حالات بہت بہتر ہو گئے۔
آپ نے تمام مسائل کا انتہائی گہرائی سے جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمارے مسائل کا ایک بڑا سبب جہالت ہے۔ آپ نےجہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کے لیے پوری زندگی وقف کر دی <ref>علامہ ڈاکٹر کلب صادق، [http://www.maablib.org/scholar/dr-allama-klb-e-sadiq-life-bio/ maablib.org]</ref>۔
== توحید المسلمین ٹرسٹ ==
یہ ان کی زندگی کا مقصد بن گیا۔انہوں نے معاشرے میں تعلیمی تحریک شروع کی اور جہالت کے اندھیروں کودور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔18؍اپریل 1996ءکوانہوں نے ضرورت مند اور غریب طلباء کو تعلیمی امداد اور وظائف دینے کے لیے’توحید المسلمین ٹرسٹ(TMT) قائم کیا۔
یہ ٹرسٹ اب پورے بھارت میں بہت سارے اسکول، کالج، تکنیکی انسٹی ٹیوٹ،خیراتی اسپتال، مفت تعلیم کے پروگرام چلا رہا ہے اور ہزاروں کے قریب طلباء کو وظائف مہیا کر رہا ہے۔اس عرصہ میںT.M.T.کے وظائف سے ہزاروں افراد فائدہ اٹھا کر اب ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
مولانا ڈاکٹر کلب صادق خاص طور پر’’ T.M.T’sمفت تعلیم پروگرام‘‘ کے ساتھ منسلک ہیں معاشرے کے انتہائی مستحق اور پسماندہ طلبہ کومعیاری تعلیم، آمدورفت،یونیفارم،اسٹیشنری، کتابیں وغیرہ بالکل مفت فراہم کراتا ہے۔اس پروگرام کے تحت لکھنؤ، الہ آباد، جونپور،علیگڑھ، مراد آباد،جلال پور،بارہ بنکی وغیرہ جیسے بھارت کے مختلف شہروں میں طلبا معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت ڈاکٹر کلب صادق نے لکھنؤ میں ایک مکمل مفت تعلیمی مرکز قائم کیا ہے جو’ یونٹی مشن اسکول‘ کے نام سے جانا جاتا ہے یہاں جوطلبا زیر تعلیم ہیں اور ان کے تمام اخرجات بشمول کتابیں،کاپیاں اور یونیفارم TMTمہیا کراتی ہے۔
یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ سر سید احمد خاں کے بعدکسی بھی مسلم رہنما نے، مسلم معاشرے میں جدید تعلیم اور سائنسی مزاج پھیلانے کی اتنی کوشش نہیں کی جتنی ڈاکٹر کلب صادق نے کی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ڈاکٹر کلب صادق کو دوسرا سر سید کہنے لگے ہیں۔
میں۲۲؍جون 1939ء کو پیدا ہوئے تھے۔
== رفاہی اور تعمیری خدمات ==
ڈاکٹر صادق کی قابل رہنمائی اور نگرانی میں چلنے والی تعلیمی،رفاہی اور تعمیری منصوبوں میں شامل ہیں:
* توحیدمسلمین ٹرسٹ
* یونٹی کالج ، لکھنؤ
* یونٹی مشن اسکول ،لکھنؤ اور
* یونٹی انڈسٹر یئل ٹریننگ سنٹر، لکھنؤ
* یونٹی پبلک اسکول، الہ آباد
* ایم․یو․کالج ،علی گڑھ
* یونٹی کمپیوٹر سنٹر، لکھنؤ
* حنا چیریٹبل ہاسپٹل، لکھنؤ
* توحیدالمسلمین میڈکل سنٹر،شکار پور
* توحیدالمسلمین بیواؤں کی پنشن اسکیم
* توحیدالمسلمین یتیموں کی تعلیم کا بندوبست
* یونٹی فری ایجوکیشن پروگرام لکھنؤ، جونپور، جلالپور،الہ آباد، بارہ بنکی، مراد آباد اور علی گڑھ۔
* مولانا کلب صادق’ایرا میڈکل کالج ‘ کے صدر اور جنرل سکریٹری آف آل انڈیا شیعہ کانفرنس رہے اس کے علاوہ اپ انجمن وظیفہ سادات و مومنین کے بھی سر گرم محرک و رکن رہے۔
انہوں نے اپنی پوری زندگی اس مشن کو جاری رکھا۔وہ صرف ایک موضوع پر بات کرتے ہیں اور وہ ہے ’تعلیم‘ اس کے علاوہ مولانا کسی بھی موضوع پر بات نہیں کرتے خصوصاً آپ نے اختلافی مسائل کو اپنا موضوع نہیں بنایا۔
جدید وسائل ابلاغ نے فاصلے ویسے ہی کم کر دئیے ہیں جس کی وجہ سے آپ کی بہت سی تقاریر سننے اور سرگرمیوں سے آگاہی ملتی رہی۔ آپ کی بیماری و صحت یابی کی خبریں بھی تواتر سے آ رہی تھیں۔
چند دن پہلے کی بات ہے کہ بیٹی نے بتایا کہ آپ کے پسندیدہ مولانا کا انتقال ہو گیا ہے۔ فوراً تصدیق کے لیے سرچ کی تو معلوم ہوا کہ یہ جعلی خبر ہے۔ مگر اب تو ان کا جانا ہو ہی گیا اور وہ 24 نومبر 2020ء کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
ناصر کاظمی نے آپ جیسے لوگوں کے لیے کہا ہے:-
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
== خطابت ==
1980ء کی دہائی میں سید العلماء علی نقی نقوی کی نے مجالس کو جو پیمانہ ذہن میں بنا دیا تھا کم ہی مقررین اس تک پہنچ سکے۔ جب آپ کا آنا موقف ہوا تو یہ قلق ہی رہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے خزانے میں کیا کمی ہے۔ وہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ موجود ہے۔
ایک دن کسی نے بتایا کہ ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر کلب صادق مجلس سے خطاب کریں گے جو کہ سید العلماء کے عزیز بھی ہیں۔ اسی شوق میں کہ مجلس سننے پہنچ گئے۔ کسی کی رہائش گاہ پر مجلس تھی۔ عصر کا وقت تھا۔ ڈاکٹر کلب صادق رونق افروز منبر ہوئے۔ پہلی جھلک سے تو مایوسی ہوئی۔ منحننی سا جسم، نہ عبا نہ عمامہ اور خشخشی سی داڑھی۔ بھلا یہ کیا تقریر کریں گے کئی مرتبہ دل میں سوچا۔ آپ نے انتہائی سادہ انداز میں حضرت علی علیہ السلام کے دور حکومت پر بات کی اور اس حکومت کی خوبیوں کو بیان کیا۔ مولا علی کا ذکر ہو مولائی نعرے نہ لگائیں یہ ہو نہیں سکتا۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے دور حکومت کو انتہائی خوبصورت انداز میں حکومت اسلامی سے تطبیق دی تو دل عش عش کر اٹھا۔ بس اس دن سے آپ میرے پسندیدہ مقررین کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ وہ جب لاہور تشریف لاتے تو میں ضرور سماعت کرتا۔ باب علم فاؤنڈیشن کے سلسلہ مجالس میں بھی جن مجالس سے آپ نے خطاب کرنا ہوتا انہی مجالس میں شریک ہوتا۔ میرے بچوں کو بھی آپ پسند تھے کیونکہ جو یہ کہتے ہیں وہ سمجھ میں آتا ہے۔ جلسات و کانفرانس ہوں یا سمینار مجمع غیر مسلم ہو یا اہل اسلام سنیوں کا یا شیعہ — سامعین بڑے شوق اور بے چینی کے ساتھ آپ کی تقریر اور بیان کے منتظر رہتے اور جب بیان ہوتا تو مجمع کے انہماک اور توجہ سے لگتا کہ جیسے کہ آپ کی سحربیانی نے اُن کی سماعتوں کو مسخر کر دیا ہو <ref>سید کرامت حسین، حکیم امت، مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق مرحوم، حکیم امت، [https://ur.hawzahnews.comحکیم%20امت،%20مولانا%20ڈاکٹر%20سید%20کلب%20صادق%20مرحوم/news/386057/حکیم-امت-مولانا-ڈاکٹر-سید-کلب-صادق-مرحوم ur.hawzahnews.com]</ref>۔
ایک مرتبہ برادر ثاقب اکبر کراچی میں عشرہ محرم گزار کے اے تو ایک کتاب کا مسودہ ان کے پاس تھا۔ بتایا کہ ڈاکٹر کلب صادق نے قرآن و سائنس کے موضوع پر مجالس سے خطاب کیا۔ اہمیت کے پیش نظر ان کی تمام تقاریر کو تحریر کر دیا ہے اب اسے چھپوانا ہے۔ یوں یہ تقاریر کا مجموعہ مصباح القرآن ٹرسٹ نے شائع کیا۔24 نومبر 2020 بروز منگل اس دنیا سے رحلت کر گئے <ref>سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 25نومبر بروز بدھ۔2020</ref>۔
== تعزیتی پیغام ==
ڈاکٹر کلب صادق نقوی کے انتقال پرملال پر آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی کا تعزیتی پیغام:
وہ شخصیت جس نے اپنی انتھک کوششوں سے شیعوں پر بڑا احسان کیا۔ میں بہت قریب سے ان کے ساتھ رابطے میں تھا اور انہیں ایک متعہد، متواضع، زاہد، پارسا اور مجاہد شخص کے عنوان سے جانتا ہوں وہ اپنے اخلاق حسنہ کے ذریعے لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے تھے۔
آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ کے نائب سربراہ اور اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی جنرل اسمبلی کے رکن مولانا ڈاکٹر کلب صادق نقوی کے انتقال پرملال پر عالم تشیع کے مرجع تقلید شیخ الفقہا آیت اللہ العظمیٰ "لطف اللہ صافی گلپائیگانی" نے تعزیتی پیغام دیا ہے۔
موصوف کے پیغام کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
بسمہ تعالیٰ
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيهِ رَاجِعُونَ
ممتاز دانشمند، قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کی نورانی تعلیمات کو پھیلانے اور عام کرنے والے ذریت رسول ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی خبر دکھ اور افسوس کا باعث بنی۔
وہ شخصیت جس نے اپنی انتھک کوششوں سے شیعوں پر بڑا احسان کیا۔ میں بہت قریب سے ان کے ساتھ رابطے میں تھا اور انہیں ایک متعہد، متواضع، زاہد، پارسا اور مجاہد شخص کے عنوان سے جانتا ہوں وہ اپنے اخلاق حسنہ کے ذریعے لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے تھے۔ اس عظیم المرتبت عالم کے نقصان پر ہندوستان کے علمی اور دینی معاشرے، معزز نقوی خاندان اور مرحوم کے عقیدت مندوں کو تسلیت پیش کرتا ہوں، اور مرحوم کے بلندی درجات کے لیے خداوند عالم سے دعا مانگتا ہوں۔9 ربیع الثانی ۱۴۴۲ ھ ق لطف اللہ صافی <ref>ڈاکٹر کلب صادق نقوی کے انتقال پرملال پر آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی کا تعزیتی پیغام، [https://ur.abna24.com/story/1089337 abna24.com]</ref>۔
== اسلامی تاریخ ==
= قبل از اسلام عرب کی مذہبی ، اخلاقی اور سیاسی حالت =
حضرت ابراہیم نے مکہ میں سب سے پہلا اللہ کا گھر بنایا خانہ کعبہ سارے عرب کا مرکز تھا۔ حج کے موقع پر ہزاروں آدمی آتے تھے ( نوٹ حضور سے پہلے بھی مکہ میں حضرت ابراہیم کی یاد میں حج ہوتے تھے لوگ ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے حرم کی زیارت کے لئے آتے تھے اور ان کی میزبانی کے فرائض قریش ادا کرتے تھے منی میں حجاج کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ عرب گو دین ابراہیمی کے پیرو تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی صورت بالکل مسخ ہو چکی تھی اور توحید کا رخ زیبا شرک اور بت پرستی کے ادھام میں چھپ کر رہ گیا تھا ۔ خدائے واحد کے ساتھ اور بہت سے کارساز شریک ہو گئے تھے۔ فرشتوں کو خُدا کی بیٹیاں کہتے تھے بتوں کو مظہر خدا مان کر ان کی پرستش کرتے تھے۔ سینکڑوں بتوں کی پوجا ہوتی تھی ان میں لات، منات ہبل اور عزی زیادہ با عظمت تھے ۔ ہبل خاص خانہ کعبہ کی چھت پر نصب تھا تمام عرب اس کی پرستش کرتے تھے ۔ عزی کی پرستش ارکان حج میں داخل تھی ان بتوں کے نام پر سانڈ چھوڑے جاتے تھے ان پر انسانوں کی قربانیاں ہوتی تھیں ۔ بتوں کے نام سے تیروں کے ذریعے قرعہ اندازی ہوتی تھی۔ ان کے علاوہ سینکڑوں لکڑی اور مسالے کے خانہ ساز (بت ) اور خانگی خدا تھے۔ سیرۃ ابن ہشام ج اول اور کتاب الاصنام، تجلی وغیرہ میں ان بتوں کی پوری تفصیل ہے <ref>تاریخ اسلام جلدا صفحه نمبر ۳۰</ref>۔
== عرب ==
عرب کے لفظی معنی فصیح اللسان اور زبان آور کے ہیں چونکہ عرب اپنی فصاحت اور زبان آوری کے مقابلہ میں ساری دنیا کی زبانوں کو ہیچ سمجھتے تھے اس لیئے عرب کو فصیح اللسان یعنی سب زبانوں سے افضل زبان سمجھتے ہیں۔
== وجہ تسمیہ ==
اہل لغت کے نزدیک عرب اعراب سے مشتق ہے جس کے معنی فصاحت اور زبان آوری کے ہیں۔ چونکہ عرب فصیح اللسان اور زبان آور تھے اس وجہ سے انہوں نے اپنا نام عرب رکھا اور باقی تمام دنیا کی اقوام کو عجم کے نام سے پکارا۔
== عرب کے معنی ==
ژولیدہ بیان اور گونگے کے بھی ہیں عرب مشتق ہے عربہ سے جس کے معنی دشت و صحرا کے ہیں چونکہ عرب کا بڑا حصہ دشت و صحرا پر مشتمل ہے اس لئے سارے ملک کو عرب کہنے لگے ۔ اہلِ جغرافیہ کے نزدیک عرب کا پہلا نام عربہ تھا اور چونکہ عربہ سامی زبان کا لفظ ہے ۔ سامی زبان میں عربہ کو صحرا یا باد یہ بھی کہتے ہیں چونکہ عرب کا ملک زیادہ تر بیابان اور ریگستانی ہے اس لئے اس کا نام عربہ پڑ گیا پھر آہستہ آہستہ وہاں کے رہنے والوں کو بھی عرب کہا جانے لگا۔
== حدود و وسعت عرب ==
عرب تین براعظموں یعنی ایشیا ، یورپ اور افریقہ میں مرکز کے طور پر ہے۔ تین طرف سے سمندر سے گھرا ہوا ہے مشرق میں خلیج فارس اور بحر عمان، جنوب میں بحر ہند مغرب میں بحر احمر، عرب خشکی اور تری دونوں راستوں سے دنیا کو اپنے دائیں اور بائیں ملا کر ایک کر رہا ہے۔
== عرب کی پیمائش ==
عرب کی پیمائش حقیقی طور سے نہیں ہوئی عرب ہندوستان سے بڑا ہے اور ملک جرمن اور فرانس سے چار گنا بڑا۔ طول تقریباً چودہ سو میل اور عرض  میں زیادہ اور شمال میں کم ہوتا گیا مجموعی رقبہ تقریبا بارہ لاکھ مربع میل ہے۔ عرب کا بڑا حصہ ریگستانی ہے شمالی حد میں شام اور عرب کے درمیان ریگستان ہے جس کو بادیہ شام یا بادیہ عرب کہا جاتا ہے۔ جنوبی حد میں عمان اور یمامہ کے درمیان ایک وسیع صحرا ہے جس کو الدھنا یا ربع الخالی کہا جاتا ہے عرب کا سب سے بڑا اور طویل سلسلہ پہاڑ جبل السراۃ ہے جو جنوب میں یمن سے شروع ہو کر شمال میں شام تیک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی اونچائی آٹھ ہزارفٹ ہے حجاز کا سب سے بڑا پہاڑ جبل الہدی طائف کا جبل الکر ا، نجد کا جبل عارض وطریق ہے۔ عرب میں کوئی دریا نہیں ہے پہاڑوں سے چشمے جاری رہتے ہیں کبھی کبھی یہ چشمے پھیل کر دُور دُور تک ایک مصنوعی دریا بن جاتے ہیں پھر ریگستان میں جذب ہو جاتے ہیں۔ یا سمندروں میں گر جاتے ہیں جو حصے سمندر کے نزدیک ہیں سرسبز و شاداب اور زرخیز ہیں عمان نجد یمن کا صوبہ بہت زرخیز ہے۔
== عرب کی پیداوار ==
عرب کی پیداوار زیادہ تر کھجور اور سیب ہیں۔
== عربوں کے پیشے ==
عربوں کے پیشے تجارت ، زراعت اور گلہ بانی تھے۔
== نجد ==
وسط عرب میں ایک سرسبز و شاداب زرخیز اور بلند قطعہ ہے تین طرف صحراؤں پہ محیط ہے۔ نجد کے عربی گھوڑے اور اونٹ بہت مشہور ہیں ہر قسم کے میوے پیدا ہوتے ہیں۔
== احقاف ==
یہاں پر کبھی عاد کی زبردست قوم آباد تھی جس کی تباہی کا ذکر قرآن میں ہے۔
== حجاز ==
حجاز مستطیل ہے اور بحر احمر کے ساحل کے پاس ہے حجاز پہاڑی علاقہ ہے جس میں مکہ، مدینہ اور طائف کے مشہور شہر آباد ہیں۔ اس کی دو بڑی بندرگا ہیں ہیں:
* جدہ جہاں سے مکہ معظمہ کو جاتے ہیں۔
* ینبوع جہاں سے مدینہ منورہ کو جاتے ہیں۔
== مکہ ==
حجاز مکہ کا دارالخلافہ ہے یہ ایک بے آب و گیاہ وادی میں واقع ہے اس کے  چاروں طرف خشک پہاڑیاں ہیں اس آبادی کی ابتدا حضرت اسماعیل کے زمانہ سے ہوئی تھی اسی شہر میں حضور پیدا ہوئے اس شہر میں خانہ کعبہ ہے جس کے معمار حضرت ابراہیم تھے یہی وہ پہلا اسلام کا چشمہ ہے۔
== مدینہ ==
مدینہ کا پرانا نام یثراب  ہے جب حضرت محمد ﷺ یہاں آئے تو اس کا نام مدینہ پڑ گیا۔
== طائف ==
حجاز کی جنت ہے بہت زرخیز علاقہ ہے یہ مکہ معظمہ سے مشرق کی طرف واقع ہے۔
== قدیم تاریخ ==
عرب لسانی اعتبار سے سامی ہیں مورخین نے انہیں تین طبقات پر تقسیم کیا ہے۔
(۱) عرب با نده (۲) عرب عاربه (۳) عرب مستعربه
== عرب بائدہ ==
یہ وہ قدیم طبقہ ہے جو تاریخی دور سے ہزاروں سال پہلے مٹ چکا تھا عاد و ثمود کی قومیں اسی طبقہ سے تھیں۔ اشعار عرب اور بعض الہامی صحیفوں کے
علاوہ کسی تاریخ سے ان کے حالات کا پتہ نہیں چلتا ۔
== عرب عاربہ ==
یہ طبقہ قحطانی کہلاتے ہیں تاریخ موجود ہے یہ لوگ یمن کے آس پاس آباد تھے۔ یہی لوگ عرب کے اصلی باشندے ہیں اور عرب کی قدیم تاریخ ان ہی سے وابستہ ہے عرب میں ان کی بڑی بڑی اور ترقی یافتہ حکومتیں تھیں ۔ ان کے عظیم الشان محلات کے کھنڈرات اب تک عرب میں پائے جاتے ہیں جو ان کے
نیاوی جاہ و جلال کے شاہد ہیں۔
== عرب مستعربه ==
یہ طبقہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ظاہر ہوا ہے ظہور اسلام کے وقت یہی دو طبقے عرب میں تھے اسلام کی ابتدا ان ہی  وابستہ ہے۔
عرب کی دینی تاریخ کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے حضرت ہاجرہ کے شکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے حضرت سارہ نے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی بیوی تھیں مجبور کیا کہ حضرت ابراہیم دونوں کو ان کی نگاہ سے دور کر دے اس لئے حضرت ابراہیم نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے جا کر عرب میں آباد کیا ۔ حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کے لئے مکہ میں خدائے واحد کی پرستش کے لیئے بے چھت کا ایک چھوٹا سا گھر بنایا اور حضرت اسماعیل کو اس کا متولی بنا کر اس گھر کی آبادی و مرکزیت اور نسل اسماعیل کی برومندی کے لئے خُدا سے دُعا کی اسلام کے مطابق روئے زمین پر یہ پہلا گھر تھا جو خالص خدائے واحد کی عبادت کے لئے بنایا گیا۔
جہرم  کا قبیلہ مکہ میں آکر آباد ہوا حضرت ابراہیم کی زندگی ہی میں کعبہ کو عرب میں مرکزیت حاصل ہو گئی تھی۔
== آل اسماعیل ==
حضرت اسماعیل نے قبیلہ کے سردار مضماض جرہمی کی لڑکی سے شادی کی اس سے بارہ اولادیں ہوئیں ان میں سے نابت وقیدار کی نسل نے بڑا دنیاوی جاہ و جلال حاصل کیا ۔ حضرت اسماعیل کے بعد کعبہ کی تولیت کا منصب ان کے لڑکے ثابت کے حصہ میں آیا آل اسماعیل میں نسل در نسل کے بعد یہ منصب عدنان تک پہنچا۔ یہ بڑا تاریخی شخص تھا آنحضرت اور اکثر صحابہ کا سلسلہ نسب ان سے ہوتا ہے عدنان کی اولاد بہت پھلی پھولی ان کا خاص پیشہ تجارت تھا۔
== خاندان قریش ==
عدنان کی نسل سے خاندان قریش کی بنیاد پڑی اس نسبت سے اس کی نسل قریشی کہلاتی ہے۔ قریش کی پانچویں پشت میں ایک تاریخی شخص قصی پیدا ہوا ۔ قریش کی اجتماعی اور سیاسی زندگی کا آغاز اس نامور شخص سے ہوتا ہے قصی کا  باپ بچپن ہی میں مر گیا تھا اور قصی کی ماں نے قبیلہ بنی عذرہ میں دوسری شادی کر لی تھی۔ اس لئے قصی کا بچپن بی عذرہ میں گذرا قصی بچپن ہی سے نہایت حوصلہ مند عاقل و فرزانہ اور امارت پسند تھا قصی کی چھ اولا دیں تھیں ۔
(۱) عبددار (۲) عبد مناف (۳) عبدالعزی (۴) عبد (۵) تخحر (۶) برہ  قصی کے مرتے وقت قصی نے حرم کے تمام منصب عبددار کو دیے اور قریش کی سعادت عبد مناف نے حاصل کی ۔ عبد مناف کے چھ لڑکے تھے ان میں ہاشم جو رسول اللہ کے دادا سب سے زیادہ با اثر تھے ۔
== بنی ہاشم کی خدمات ==
کعبہ کے متولیوں میں قصی کے بعد ہاشم بڑے رتبہ کے آدمی تھے انہوں نے اپنے زمانہ میں خاندان قریش کی بڑی عظمت قائم کی ۔ قریش کا آبائی پیشہ تجارت تھا حجاج کو بڑی فیاضی اور سیر چشمی سے کھانا کھلاتے تھے۔ اُنہوں نے مدینہ کے خاندان بنی نجار میں شادی کی لیکن شادی کے بعد شام جاتے ہوئے انتقال کر گئے بیوہ سے ایک فرزند تولد ہوا جس کا نام شیبہ رکھا گیا۔ ان کے بھائی مطلب کو خبر ہوئی تو وہ مدینہ جا کر یتیم بچے کو لے آئے اور اپنی آغوش شفقت میں ان کی پرورش
کی ان کی پرورش کی وجہ سے شیبہ کا نام عبد المطلب یعنی مطلب کا غلام پڑ گیا۔
== حضرت عبد المطلب ==
حضرت عبدالمطلب مسن شعور کو پہنچنے کے بعد باپ کی جگہ نے منت مانی تھی کہ اگر وہ اپنی پوری زنددگی میں اپنے دس لڑکوں کو جو ان دیکھ لیں گے تو اُن میں سے ایک لڑکا خدا کی راہ میں قربان کریں گے ۔ جب اُن کی آرزو پوری ہوئی تو منت اُتارنے کے لیئے دسوں لڑکوں کو لے کر کعبہ گئے حضرت عبداللہ کے نام جو تمام اولاد میں سے زیادہ محبوب  تھے قرعہ نکلا <ref>سیره ابن شام جلد نمبر اول میں ۱۲/۱۳</ref>۔
== حضرت عبدالله ==
حضرت عبدالمطلب نے قبیلہ زہرہ کے رئیس وہب بن مناف کی لڑکی  آمنہ کے ساتھ حضرت عبداللہ کی شادی کر دی۔ شادی کے تھوڑ ے ہی دنوں بعد  حضرت عبداللہ کا مدینہ  میں انتقال ہو گیا<ref>تاریخ اسلام جلد اول ص 32</ref>۔
== حضرت محمد کی پیدائش ==
حضرت عبداللہ کی وفات کے چندمہینوں بعد حضور ۱۲ ربیع الاول کو پیدا ہوئے ۔ تو حضور کے دادا حضرت عبدالمطلب نے پوتے کو لے کر خانہ کعبہ میں دعا مانگی اور ساتویں دن عقیقہ کر کے محمد نام رکھا  <ref>سیرۃ ابن ہشام ج ا،ص ۸۷</ref> اور کل قریش کی دعوت کی ۔ قریش نے اس نامانوس نام رکھنے کا سبب پوچھا حضرت عبدالمطلب نے کہا میرا فرزند ساری دُنیا میں مدح وستائش کا سزاوار قرار پائے گا۔
== حضور کی پرورش ==
شرفائے مکہ میں دستور تھا کہ وہ عربی خصوصیات کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنے بچوں کو ایام رضاعت ہی میں دیہاتوں میں بھیج دیتے تھے۔ اس دستور کے مطابق چھ مہینے بعد حضرت عبدالمطلب نے اپنے پوتے کو ایک دایہ حلیمہ کو دیا۔ دو برس تک اس بچہ نے حلیمہ سعدیہ کی گود میں پرورش پائی تیسرے سال حلیمہ نے حضور کو حضور کی والدہ آمنہ کو واپس کر دیا۔ ابھی یتیم بچہ چھ سال ہی کا تھا کہ حضرت آمنہ بچہ کو لے کر مرحوم شوہر کی قبر کی زیارت کے لئے مدینہ گئیں راستہ میں مقام ابواء میں حضرت آمنہ کا انتقال ہو گیا۔ تو پھر حضرت عبدالمطلب نے اپنے ہوتے حضرت محمد ﷺ کو حضرت ابو طالب کے سپرد کیا۔ جو حضرت عبدالمطلب کا مبینا رت تھا۔ سن شعور کو پہنچنے کے بعد حضور تھا اور حضور کا چچا تھا حضرت ابو طالب کا پیشہ تجارت تھا حضور نے بھی تجارت کا پیشہ اختیار کیا طور نہایت محنت اور دیانتداری کے ساتھ
تجارت کرتے تھے حضور کی دیانتداری کی شہرت دور دور تک پھیل گئی <ref>چوہدری غلام رسول ایم ۔ اے۔، مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ، علمی کتاب خانہ کبیر سٹریٹ اردو بازار لاہور</ref>۔
== حضورکی ازواج مطہرات ==
حضور پاک نے عالم شباب میں صرف ایک ہی سن رسید داور بیوہ خاتون پر قناعت فرمائی۔ پھر زوال شباب یعنی پچاس سال کی عمر کے بعد مختلف مصالح کی بنادر مختلف اوقات میں گیارہ شادیاں کیں۔
== حضرت خدیجہ سے شادی ==
حضرت خدیجہ قریش کی ایک معزز پاکیزہ با اخلاق اور دوانند بیوہ تھیں۔ ان کا تجارتی کاروبار نہایت وسیع تھا حضور حضرت خدیجہ کا سامان لے کر بصر ہ تشریف لے گئے اس سفر میں حضرت خدیجہ کا غلام میسر بھی ساتھ تھا۔ اس غلام نے حضور کے اخلاق ، عادات مشاہدہ کئے اور واپس آکر حضرت خدیجہ سے بیان کئے ۔ حضرت خدیجہ نے حضور سے شادی کی درخواست کی آپ نے منظور فرمالیا۔ اس وقت حضور کی عمر ۲۵ سال اور حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال تھی پانچویں پشت پر دونوں کا نسب نامہ مل جاتا ہے۔ حضرت خدیجہ کی پہلی شادی ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوئی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد عتیق ابن عائد کے ساتھ معقد ہوا ان کے انتقال کے بعد آنحضرت کے عقد میں آئیں حضور کو حضرت خدیجہ سے بڑی محبت تھی ان کی زندگی میں حضور نے دوسرا نکاح نہیں کیا ۔ ہجرت سے مدینہ سے کئی سال پہلے مکہ ہی میں حضرت خدیجہ کا انتقال ہو گیا تھا ان کے بعد حضور نے متعدد شادیاں ہیں۔
== سودہ بنت زمعہ ==
سودہ بنت زمعہ سے نکاح کیا یہ بھی بیوہ  تھیں ان کے پہلے شوہر کا نام سکران بن عمرتھا آغاز دعوت اسلام میں دونوں میاں ہوئی مسلمان ہو گئے تھے جیشہ سے واپسی کے کچھ دنوں  بعد سگر ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت سود و حضور کی زوجیت میں آئیں ان کی وفات کے بارے میں بڑا اختلاف ہے۔
== حضرت عائشہ ==
حضرت عائشہ حضرت ابوبکر  کی صاحبزادی ہیں آنحضرت نے ان سے مکہ میں نکاح کیا حضرت عائشہ بڑی ذہین زیرک اور فہیم
تھیں۔ حضور نے عورتوں کے نسوانی احکام ومسائل کی تعلیم کے لیئے انہیں خاص طور اس کی تعلیم بھی تھی۔ حضرت،  صرف امہات المومنین میں نہیں بلکہ بہت سے
صاحب علم صحابہ کے مقابلہ میں ممتاز تھیں اور بڑے بڑے صحابہ مہمات ومسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے ۔ حضرت عائشہ نے 9 سال حضور کی رفاقت میں گزارے حضور کی وفات کے بعد ۴۵ سال زندہ رہیں ۵۷ ہجری میں ۶۶ سال کی عمر میں وفات پائی <ref>تاریخ اسلام جلد اول صفحه ۱۲۷</ref>۔
== حضرت حفصہ ==
یہ حضرت عمر کی صاحبزادی تھیں یہ بھی بیوہ تھیں ان کی پہلی شادی حضرت خنیس بن حذافہ کے ساتھ ہوئی تھی خنیس  غزوہ بدر میں زخمی ہوئے اور ان کے انتقال کے بعد حضور نے عقد فرمایا ان کے مزاج میں کسی قدر تیزی تھی45 ہجری میں ان کا انتقال ہو گیا۔
== ام المساکین حضرت زینب ==
ان کا نام زینب تھا فقراء اور مساکین کو بہت کھلاتی تھیں اس لئے ام المساکین کے نام سے مشہور تھیں۔ ان کے پہلے شوہر حضرت عبد اللہ بن جحش جنگ احد میں شہید ہوئے ان کی شہادت کے بعد حضور نے ان سے نکاح فرمایا۔ لیکن اس شرف کے حصول کے دو یا تین مہینوں کے بعد زینب انتقال کر گئیں۔ حضور نے نماز جنازہ خود پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کیا انتقال کے وقت ۳۰ سال عمر تھی۔
== حضرت ام سلمہ ==
ہند نام تھا ام سلمہ کنیت والد کا نام نہیں تھا۔ ان کی پہلی شادی ان کے چیرے اور آنحضرت کے رضاعی بھائی عبداللہ بن عبد الاسد کے ساتھہ ہوئی تھی عبداللہ غزوہ اُحد میں زخمی ہونے کے بعد انتقال کر گئے ۔ ان کے انتقال کے بعد حضور کے عقد میں آئیں حضور کی وفات کے بعد کافی عرصہ تک زندہ رہیں۔ ان کی سن وفات میں بڑا اختلاف ہے واقعہ کربلا کے چند سال پہلے عائشہ کے بعد انہی کا درجہ تھا۔
== حضرت زینب ==
آنحضرت کی پھوپھیری بہن تھیں ان کی شادی خود طور نے اپنے متبنی غلام حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ کر دی تھی۔ لیکن طلاق ہوگئی طلاق کے بعد حضور نے خود نکاح فرمایا یہ بڑی عابدہ، زاہدہ، فیاض اور حسین وجمیل تھیں۔ ان اوصاف کی بنا پر حضور انہیں بہت محبوب رکھتے تھے امہات المومنین میں یہی حضرت عائشہ کی ہمسری کرتی تھیں حضور کے بعد ازدواج مطہرات میں سب یا اسی سال یعنی ۶۱ ہجری میں انتقال ہوا اس وقت اُن کی عمر ۸۴ سال تھی حضرت
سے پہلے انہی کا انتقال ہوا ۲۰ ہجری میں ۵۳ سال کی عمر میں وفات پائی۔نوٹ : امہات : جمع کا صیغہ ہے اور یہ اُم کی جمع ہے امہات المومنین کے معنی ہیں مومنوں کی مائیں حضور کی ازدواج مطہرات کو قرآن میں مومنوں کی مائیں کہا گیا ہے
لفظ اُمہات اس کا مطلب ہے والدہ جن سے وہ پیدا ہوا ہے۔
== حضرت جویریہ ==
یہ قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارث بن ضرار کی بیٹی تھیں۔ ان کی پہلی شادی مسافح بن صفوان سے ہوئی تھی جو غز وہ مرسیع میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ غزوہ میں بہت کی لونڈیاں غلام گرفتار ہوئے انہی میں جو یریہ  بھی تھیں یہ ثابت بن قیس انصاری کے حصہ میں پڑیں ۔ ذی وجاہت خاندان کی خاتون تھیں غلامی کو غیرت نے گوارا نہ کیا 19 اوقیہ سونے پر ثابت سے رہائی کی شرط قرار پائی۔ لیکن پاس کچھ نہ تھا حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی گذشتہ عظمت اور موجودہ صورت حال بیان کر کے مدد کی طالب ہوئیں ۔ آپ نے ان کی رضا سے ثابت کی رقم ادا کر کے ان سے شادی کر لی۔ اس رشتہ کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں نے حضور کے  ساتھ التعلق کی وجہ سے بنی مصطلق کی تمام لونڈیاں غلام آزاد کردیئے ۵۰ ہجری میں ۶۵  سال کی عمر میں انتقال ہوا۔
== حضرت ام حبیبہ ==
اصلی نام رملہ اور ام جیبہ کنیت ہے ۔ یہ بھی قریش کے خاندان سے تمھیں اپنے پہلے شوہر عبد اللہ بن جحش کے ساتھ شادی ہوئی ۔ حبشہ کی دوسری ہجر سے ہیں حبشہ گئیں حبشہ میں ان کے شوہر نے عیسوی مذہب اختیار کر لیا ۔ لیکن یہ خود اسلام پر قائم رہیں اس لئے عبد اللہ بن بخش نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی حضور کو یہ واقعات جب معلوم ہوئے تو آپ نے نجاشی شاہ حبش کی وساطت سے ان کے پاس شادی کا پیغام بھیجا۔ اُنہوں نے قبول کر لیا اور ان کی جانب سے مخالد بن سعید اموی اور حضور کی جانب سے نجاشی کی وکالت میں چار سو (۲۰۰) دینار پر عقد ہوا ۔ نجاشی نے حضور کی جانب سے مہر کی رقم ادا کی اور ولیمہ کیا نکاح کے بعد حضرت ام حبیبہ کو شرجیل بن حسنہ کے ساتھ حضور کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا اُنہوں نے ۴۴ ہجری میں وفات پائی۔
== حضرت میمونہ ==
ان کے والد کا نام حارث تھا ان کی پہلی شادی مسعود بن عمرو شفی کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس نے طلاق دے دی تو ابو در ہم بن عبد العزئی نے نکاح کیا ان کے انتقال کے بعد حضور کے عقد میں آئیں ان کی وفات میں بھی اختلاف ہے صیح اللہ ہجری میں بمقام سرف انتقال ہوا۔
== حضرت صفیہ ==
اصل نام زینب ہے یہ غزوہ خیبر میں امام وقت کے پانچویں حصے میں پڑی تھیں جسے صفی بھی کہتے ہیں۔ اس لئے صفیہ کہلا ئیں نسلاً اور مذہبا یہود یہ تھیں ان کے نہال اور دودھیال دونوں میں سرداری تھی ۔ ان کا باپ می بن 40
الطلاب قبیلہ بی نظیر کار میں تھا اور ان کی ماں بنی قریظہ کے رئیس کی بنی تھیں ۔ ان کی پہلی شادی سلام بن مشکم یہودی سے ہوئی تھی اس نے طلاق دے دی حضور حضرت علیہ کی بڑی عزت اور محبت کرتے تھے ازدواج مطہرات میں طور ان کی دلجوئی فرماتے تھے۔ <ref>تاریخ سلام ج 1، ص ۱۲۹</ref>۔
== اولا واحفاد ==
آنحضرت نے کی اولا واحفاد کے بارے میں بڑا اختلاف ہے  مختلف روایتوں کی روسے ان کی تعداد بارہ تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن متفق علیہ بیان یہ ہے کہ چھ اولا دیں تھیں دو صاحبزادے قاسم اور ابراہیم اور چار صاحبزادیاں زینب، رقیہ ام کلثوم ، فاطمہ زہرا" بعض روایتوں میں دو اور صاحبزادوں طیب اور طاہر کا نام بھی ملتا ہے ان میں ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے باقی کل حضرت خدیجہ سے قاسم سب سے پہلی اولاد تھے۔ ان کی پیدائش نبوت سے گیارہ بارہ سال پیشتر ہوئی تھی لیکن بچپن ہی میں انتقال کر گئے آنحضرت کی کنیت ابو القاسم انہی کے نام پر تھی۔ سب سے آخری اولا د ابراہیم تھے یہ ۸ ہجری میں پیدا ہوئے اور کل سوا دو مہینے زندہ رہے ان کی موت کے دن اتفاق سے سورج گرہن ہوا، لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ ابراہیم کی موت اس کا سبب ہے۔ رسول اللہ نے اس کی تردید فرمائی کہ چاند اور سورج خدا کی نشانیاں ہیں کسی کی موت سے ان میں گر جن نہیں لگتا۔
صاحبزادیوں میں زینب سب سے بڑی تھیں یہ قاسم کے بعد پیدا ہوئیں زینب نے آنحضرت کی حیات ہی میں ۸ ہجری میں انتقال کیا ایک لڑکا علی اور ایک لڑکی امامہ یادگار چھوڑی ۔ سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہرا تھیں ان کا نکاح حضرت علی سے ہوا ان کی پانچ اولا دیں تھیں امام حسن ، امام حسین ، ام کلثوم، زینب محسن محسن کا انتقال بچپن میں ہو گیا تھا <ref>تاریخ سلام ج ا ص ۱۳۰</ref>۔
حضور تکمیل دین کے آخری فرائض سے سبکدوشی کے بعد ۱۸ یا ۹ اصفر ہجری کو آپ مسلمانوں کے گور غریباں جنت البقیع تشریف لے گئے ۔ وہاں سے واپس
ہوئے تو مزاج ناساز ہو گیا بیماری کی حالت میں بھی آپ از راہ عدل باری باری سے ازدواج مطہرات کے گھروں میں بسر فرماتے تھے۔ جب مرض زیادہ بڑھا تو ان سے اجازت لے کر حضرت عائشہ کے ہاں مستقل قیام فرمایا۔ وفات سے چار دن پہلے (جمعرات) کو آنحضرت نے فرمایا دوات اور کا غذ لاؤ۔ میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو گے حضرت عمر نے لوگوں سے کہا حضور کومرض  کی شدت ہے ہمارے پاس قرآن موجود ہے جو ہمارے لیئے کافی ہے اس پر حاضرین میں اختلاف ہوا بعض کہتے ہیں کہ تعمیل ارشاد کی جائے بعض حضرات حضرت عمر کی تائید میں تھے ۔ ( یہ واقعہ اہلِ سنت اور شیعوں کے درمیان بڑا معرکہ الاراء بن گیا )۔ شیعوں کا دعوی ہے کہ آنحضرت حضرت علی کی خلافت کا فرمان لکھوانا چاہتے تھے جسے حضرت عمر نے رکوا دیا۔
سنی کہتے ہیں کہ آنحضرت کو واقعی مرض کی شدت تھی دین مکمل ہو چکا تھا۔ شریعت کا کوئی حکم تعمیل کے لئے باقی نہ رہ گیا تھا۔ ضروری اور دینی حکم ہوتا تو آنحضرت کسی کے روکنے سے نہ رک سکتے تھے۔ اس دن نماز ظہر کے وقت طبعیت کو کچھ سکون ہوا تو غسل فرما کر حضرت علی اور حضرت عباس کے سہارے مسجد تشریف لے گئے نماز کے بعد خطبہ دیا یہ آپ کی زندگی کا آخری خطبہ تھا۔
== تجہیز و تکفین ==
وفات دوشنبه ۱۲ ربیع الاول 11 ہجری کو ہوئی وفات کے دن شام ہو چکی تھی تجہیز و تکفین اور قبر کنی کے مراحل رات سے پہلے انجام نہ پاسکتے تھے اس لئے دوسرے دن سہ شبینہ کو تجہیز و تکفین عمل میں آئی غسل وغیرہ کی سعادت کا اعزاز خاص حضرت علی فضل بن عباس، قشم بن عباس اور اسامہ بن زیدکے حصہ میں آیا حضرت ابوطلحہ نے قبر مبارک کھودی اور باری باری سے مسلمانوں نے بلا امام نماز جنازہ پڑھی اور شنبه ۱۳ ربیع الاول مطابق ۱۱ ہجری (۶۳۲ء ) حضور کو حضرت عائشہ کے حجرہ پاک و مظہر زمین کے سپر د کر دیا <ref>تاریخ سلام ج اص ۱۲۴</ref>۔
== اسلامی کیلنڈر ==
اسلامی کیلنڈر سال کے بارہ مہینوں پرمشتمل اور ایک ایک حرف ایک ایک مہینے کے لئے ہوتا ہے۔ اسلامی کیلنڈر کے مطابق اسلامی سال یکم محرم سے شروع ہوتا ہے اور یکم محرم (۱) فروری ۲۰۰۶ ء سے نیا اسلامی سال شروع ہوا ہے اور اسلامی سن ۱۴۲۷ ہجری ہوگا اور آگے جو ۲۰۰۷ ء نیا سال جو یکم محرم کو شروع ہو گا وہ ۱۴۲۸ ہجری ہوگا اور اسلامی کیلنڈر سال کے ۳۵۵ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ عیسوی کیلنڈر سال کے ۳۶۵ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیپ کا سال ہو تو ۳۶۶ دن ہوتے ہیں اسلامی سال اور عیسوی سال دونوں میں تقریبا دس دنوں کا فرق ہے اسلامی سال عیسوی سال سے دس دن کم ہے۔
نوٹ: اسلامی تہواروں کا انحصار چاند نکلنے پر ہے اسلامی مہینے قمری کہلاتے ہیں اور سال ہجری حضور نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی اُس وقت سے ہجری سال شروع
ہوا ہے سن عیسوی حضرت عیسی کی پیدائش سے شروع ہوا۔
== قمری ==
اُردو لغت میں قمر سے منسوب وہ مہینے یا سال جو چاند کی چال کے مطابق قرار دیئے گئے ہیں۔
قمر : تیسری رات کے بعد کا چاند پہلی اور دوسری رات کے چاند کو ہلال کہا جاتا ہے۔ قمری مہینوں کا آغاز چونکہ چاند نکلنے سے ہوتا ہے اسلامی شریعت نے مہینے اور
سال کے سلسلے میں نظام قمری کا اعتبار کیا ہے۔
== محرم الحرام ==
اسلامی قمری سال کا آغاز یکم محرم الحرام کے مہینہ سے ہوتا ہے دس محرم الحرام کا دن بہت برکت والا دن سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کے مطابق اسی دن عرش،
کرسی ، آسمان، زمین ، سورج ، چاند ستارے اور جنت پیدا کئے گئے ۔
== صفر المظفر ==
اسلامی قمری سال کے دوسرے مہینے کا نام صفر ہے تصوف کے بابا فرید الدین فرماتے ہیں کہ ایک برس میں دس لاکھ اسی ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں اور ماہ صفر میں تو لاکھ ہیں ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ اسی ماہ صفر میں قابیل نے بابیل کو قتل کیا حضور کا ارشاد اس طرح سے ہے کہ جو کوئی مجھے صفر کا مہینہ گزر جانے کی خبر دے گا میں اسے جنت میں جانے کی بشارت دوں گا۔ ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کے متعلق مشہور ہے کہ اس دن حضور نے بیماری سے صحت پائی تھی اس بنا پر اس
جوان کھانے وشیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔
== ربیع الاول ==
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے حضرت محمد ﷺ کی ولادت اس ماہ میں ہوئی تھی حضور کا وصال بھی اس مہینہ میں ہوا تھا۔
== ربیع الثانی ==
اسلامی قمری سال کا چوتھا مہینہ ہے اس ماہ کو ربیع الآخر بھی کہا
جاتا ہے۔
== جمادی الاولی ==
اسلامی قمری سال کے پانچویں مہینہ کا نام جمادی الاولی ہے۔ جہادی کے معنی ہیں کسی چیز کا جم جانا چونکہ جن دنوں موسم سرما کی شدت کی وجہ
سے پانی جمنے کا آغاز ہوتا ہے اس لیئے اس ماہ کو جمادی الاولی کہا جاتا ہے۔
== جمادی الثانیہ ==
اسلامی سال کے چھٹے مہینہ کا نام جمادی الثانیہ ہے اس کو ابو بکر صدیق کا وصال ہوا تھا۔
جمادی الآخر بھی کہا جاتا ہے۔
== رجب المرجب ==
اسلامی قمری سال کا ساتواں مہینہ ہے ،رجب المرجب کے مہینہ کی پہلی جمعرات کو عبادت الہی کرنے سے بے شمار ثواب حاصل ہوتا ہے۔
حضور نے فرمایا ہے کہ اس مہینہ میں خاص طور پر مغفرت ہوتی ہے ملائکہ اس شب کو لیلتہ الرغائب ( یعنی مقاصد کی شب ) کہتے ہیں اس رات تمام آسمانوں اور زمینوں میں کوئی فرشتہ ایسا باقی نہیں رہتا جو خانہ کعبہ یا اطراف کعبہ میں جمع نہ ہو ۔ اُس وقت پروردگار عالم تمام فرشتوں کو اپنے دیدار سے مشرف کرتا ہے ماہ رجب المرجب کی ستائیسویں شب معراج کو ستر ہزار ملائکہ نور کے طباق لئے ہوئے زمین پر نازل ہوتے ہیں اور ہر گھر میں جاتے ہیں۔
== شعبان المعظم ==
اسلامی سال کے آٹھویں مہینہ کا نام شعبان المعظم ہے رجب اور رمضان کے درمیان شعبان کا مہینہ ہے اس مہینہ میں مرنے والوں کے نام زندوں کی فہرست سے نکال کر مردوں کی فہرست میں شامل کر دیئے جاتے ہیں۔ شعبان کی پندرھویں شب کو عبادت کرنا فضیلت کا باعث سمجھا جاتا ہے اس شب کو شب برات بھی کہا جاتا ہے اس شب کو اللہ تعالیٰ آسمان و دنیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے <ref>شاہ معین الدین احمد ندوی، تاریخ اسلام جلد (۲۰۱) ،  مکتبہ رحمانیہ اقر اسنٹر اردو بازار لاہور</ref>۔
== رمضان المبارک ==
اسلامی قمری سال کے نویں مہینے کا نام رمضان المبارک ہے۔ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں شب قدر یا لیلتہ القدر اسی ماہ ہوتی ہے قرآن اسی مہینہ میں حضور پر اتر نا شروع ہوا۔
== شوال المکرم ==
اسلامی سال کا دسوواں مہینہ ہے اس مہینہ میں عرب کے لوگ اپنی اونٹنیوں کو تیز دوڑاتے تھے۔ اس تیزی کے باعث بعض مرتبہ اونٹنیاں اپنی دم اُٹھالیا کرتی تھیں چنانچہ اس نسبت سے اس مہینہ کو شوال کا نام دیا گیا۔ شوال کے مہینے میں چھ  روزے رکھتے ہیں اور ثواب حاصل کرتے ہیں۔ یکم شوال کے دن روز دکھا کرہ تاریکی اور نا جائز سمجھا جاتا ہے اس لئے روزہ شوال کی دو تاریخ سے شروع کرتے ہیں۔ (۱۱) ذیقعدہ: اسلامی سال کا گیارہواں مہینہ ہے اس مہینے میں عرب جنگ کو
ترک کر دیتے تھے اور اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تھے۔
== ذی الحجہ ==
اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ہے تمام مہینوں کا سردار رمضان کا مہینہ اور تمام مہینوں میں حرمت والا مہینہ ذی الحجہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس مہینے کے دس دنوں کی فضیلت بہت زیادہ ہے اس ماہ سنت ابراہیمی ادا کی جاتی ہے۔ عید قربان ہوتی ہے حج ہوتا ہے ذی الحجہ کے آٹھویں دن حاجی مکہ مکرمہ کی طرف سے منی کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور آب زمزم خوب سیر ہو کر پیتے ہیں اس لئے اس دن کو یوم ترویہ بھی کہتے ہیں <ref>محمد الیاس عادل، بارہ مہینوں کی نفلی عبادت ، مشتاق بک کارنرالکریم مارکیٹ اردو بازارلا ہو</ref> ۔
'''آیت اللہ  سید محمد باقر رضویؒ باقر العلوم'''
'''حالات  زندگی'''
آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد باقر رضوی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے روز ولادت 7 صفر المظفر 1286 ہجری کو وزیر گنج لکھنو میں پیدا ہوئے۔ دادیہال اور نانیہال دونوں اعتبار سے آپ کا تعلق بر صغیر بلکہ عالم تشیع کے مشہور و معروف دینی اور علمی خانوادہ سے ہے۔ آپ کے دادا آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ، والد ماجد فقیہ احسن نادرۃ الزمن آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابّو رحمۃ اللہ علیہ تھے اور آپ کے نانا آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفران مآب رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے جنت مآب آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد تقی  قوی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ سرکار باقرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابّو رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ اسکے بعد فقہ و اصول کی مقدماتی تعلیم فقیہ اعظم مفتی سید محمد عباس موسوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردان رشید محقق کامل مولانا شیخ تفضل حسین طاب ثراہ فتح پوری اور عالم جلیل مولانا سید حیدر علی طاب ثراہ سے حاصل کی اور اپنے والد ماجد کے درس میں شامل ہوئے اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ جیسا کہ آپ کے والد ماجد نے بعض اکابرین سے فرمایا تھا کہ “الحمد للہ سید محمد باقر سلمہ درجہ اجتہاد پر فائز ہیں۔” درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور اکثر اسلامی علوم عربی ادب، فقہ، اصول، فلسفہ، منطق، حدیث، تفسیر اور درایت میں کامل تسلط کے باوجود جب تک نجف اشرف جا کر باب مدینۃ العلم کی بارگاہ میں کسب فیض نہیں کیا تب تک کسی کو اپنی تقلید کی اجازت نہیں دی۔1302 ہجری میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ نجف اشرف تشریف لے گئے لیکن عام طلاب کے برخلاف اپنی علمی استعداد کے سبب ابتدائی دروس کے بجائے  رس خارج میں شرکت کی <ref>مولانا سید علی ہاشم عابدی، آیت اللہ علامہ سید محمد باقر رضویؒ باقر العلوم</ref>۔
== اساتذہ ==
والد ماجد آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف آغا ابّو
مولانا شیخ تفضل حسین فتح پوری
مولانا سید حیدر علی لکھنوی
صاحب کفایۃ الاصول آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد کاظم خراسانی المعروف بہ آخوند خراسانی
آیۃ اللہ العظمیٰ مرزا خلیل تہرانی رحمۃ اللہ علیہ
صاحب (کتاب) عروۃ الوسقیٰ آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی رحمۃ اللہ علیہ
آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ شریعت فتح اللہ اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ
صاحب مستدرک الوسایل آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ میرزا حسین بن محمد تقی بن علی محمد نوری طبرسی المعروف بہ محدث نوری رحمۃ اللہ علیہ
آیۃ اللہ العظمیٰ محمد حسین شهرستانی۔
حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تقریبا 11 برس مذکورہ فقہاء و مجتہدین کے درس خارج میں شرکت کی اور ان سے سند اجتہاد حاصل کی۔ نجف اشرف میں قیام کے دوران ہی آپ کے والد ماجد نے 1312 ہجری کو کربلائے معلی میں رحلت فرمائی اور امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہوئے۔
باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ جب لکھنو آئے تو آپ کے والد کے مقلدین نے آپ کی جانب رجوع کیا۔ نیز ملک کی مشہور شیعہ دینی درس گاہ سلطان المدارس جو آپ کے والد مرحوم کی یادگار ہے اس کے مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔ آپ کے علم، زہد و تقویٰ کی شہرت ہوئی تو پورے ملک (ہند و پاک) سے علوم آل محمد علیہم السلام کے مشتاقان کا لکھنو آنے کا سلسلہ جاری ہو گیا۔
== شاگرد ==
آپ کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے سلطان المدارس میں آپ کی 30 سالہ دور تدریس میں کسب فیض کیا جو اپنے زمانے کے جید علماء میں شمار ہوتے تھے۔ ذیل میں ان میں سے چند کے اسمائے گرامی ملاحظہ فرمائیں:
سید شبیر حسین طاب ثراہ (سابق استاد وثیقہ عربی کالج فیض آباد)
آیۃ اللہ سید احمد علی موسوی
آیۃ اللہ سید ظفرالحسن
آیۃ اللہ سید راحت حسین گوپالپوری
شمس العلماء آیۃ اللہ سید سبط حسن نقوی
مولانا سید محمد رضا
مولانا سید عالم حسین طاب ثراہ (سابق استاد سلطان المدارس لکھنو)
مولانا سید کلب حسین نقوی طاب ثراہ (کبن صاحب)
سید العلماء مولانا سید علی نقی نقوی (نقن صاحب)
مولانا سید وصی محمد
آیۃ اللہ سید محمد رضوی  (فرزند سرکار باقر العلوم رہ)
مولانا ڈاکٹر سید مجتبیٰ حسن  کامونپوری۔
مولانا سید ابن حسن صاحب نونہروی
مولانا زین العابدین طاب ثراہ (ملتان)
مولانا سید حیدر حسین نکہت  (صدر الافاضل)
مولانا محسن نواب
مولانا سید نجم الحسن رضوی کراروی
مذکورہ اسمائے گرامی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب شاگردان ایسے جید علماء تھے تو استاد کس منزل پر ہوں گے۔ خدا رحمت نازل فرماے <ref>علمای ہند، آیت  اللہ محمد باقر رضوی، [https://ulamaehind.in/scholar/syed-mohammad-baqir-rizvi ulamaehind.in]</ref>۔
== سلطان المدارس ==
ملت جعفریہ کا عظیم سرمایہ سلطان المدارس ہے۔ آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابو رحمۃ اللہ علیہ نے 1892 عیسوی میں اس مدرسہ کی بنیاد رکھی اور تا حیات اس کی بقاء اور ارتقاء کے لئے کوشاں رہے۔ بانی مدرسہ کی رحلت کے بعد آپ کے فرزند باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ اس کے مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔انہوں نے بھی اپنے والد مرحوم کی طرح طلاب کی تعلیم و تربیت کے علاوہ مدرسہ کو نمایاں ترقی دی۔1892 عیسوی سے 1911 عیسوی تک تقریبا بیس برس مدرسہ سلطان المدارس کی اپنی کوئی عمارت نہیں تھی۔ ابتداء میں گول دروازہ چوک کے قریب کرائے کے مکانات میں، اس کے بعد آصفی مسجد کے حجروں میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا۔  باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے نمایاں کارناموں میں سے ایک میڈکل کالج کے سامنے مدرسہ سلطان المدارس کی ذاتی عمارت ہے جسمیں آج بھی مدرسہ قائم ہے۔
اسی طرح آپ نے کربلائے معلی عراق میں مدرسہ ایمانیہ کی بنیاد رکھی۔ اسی مدرسہ میں مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تعلیم حاصل کی۔اسی طرح آپ نے دوران سفر مشہد مقدس میں بھی ایک مدرسہ اور حسینیہ کی بنیاد رکھی۔
== تحریک تعمیر و تجدید مساجد ==
باقر العلوم رہ نے مساجد کی تعمیر و تجدید کی تحریک چلائی تا کہ مساجد آباد ہوں اور انمیں نماز جماعت کا سلسلہ جاری ہو۔ آپ نے بہت سی مساجد کی تجدید فرمائی۔ اسی طرح بہت سی مساجد آپ کے ذریعہ تعمیر ہوئیں جنمیں ردولی کے حسینیہ ارشاد حسین مرحوم کی مسجد آپ ہی کے حکم پر تعمیر ہوئی اور اس کا سنگ بنیاد 1925 عیسوی میں آپ ہی کے دست مبارک سے رکھا گیا۔
== حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے رابطہ ==
باقرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے مولا و آقا حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے خاص لگاو تھا۔ ظاہر ہے امام معصوم سے رابطہ یقین، ایمان و عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنی زندگی معصومین علیہم السلام کی سیرت و احادیث کی روشنی میں بسر کرے۔ اس کے سیرت و کردار سے معصومین علیہم السلام کے سیرت و کردار کی خوشبو آئے۔ سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا اخلاص، زہد و تقویٰ اس منزل پر تھا کہ آپ کو دیکھ کر لوگوں کو اہلبیت علیہم السلام کی یاد آتی تھی۔ آپ انتہائی درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے کہ ایک بار ناظم صاحب کے امام باڑے میں وعظ فرما رہے تھے کہ کسی سامع نے متاثر ہو کر کہا “کیا عالمانہ بیان ہے۔” کوئی اور ہوتا تو خوش ہو جاتا لیکن یہ سنتے ہی آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو گیا اور فرمایا: عالم صرف اہلبیت علیہم السلام ہیں۔
ظاہر ہے ایک فقیہ اعظم کا بیان اقوال معصومین علیہم السلام کا ائینہ دار ہوتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: لوگوں کی تین قسمیں ہیں۔ علماء، متعلمین اور غثاء (یعنی جو ہر ہوا پر حرکت کرے اور ہر آواز کے پیچھے چل پڑے) ہم (آل محمد علیہم السلام) علماء ہیں، ہمارے شیعہ متعلم ہیں اور باقی لوگ غثاء ہیں۔اسی طرح منقول ہے کہ ایک بار اہل سنت کے کچھ علماء سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے شریعت کدہ پر حاضر ہوئے، سلام و احوال پرسی کے بعد ان لوگوں نے کہا کہ آپ شیعوں کے یہاں جو امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ بھیجا جاتا ہے کافی مضحکہ خیز ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دریا میں عریضہ ڈالا جائے اور وہ ان تک پہنچ جائے۔ مچھلیاں کھا لیتی ہوں گی یا پانی میں گل جاتا ہوگا۔ آپ نے حکم دیا کہ شیشہ کے برتن میں پانی لایا جائے۔ جب وہ لایا گیا تو آپ نے ان لوگوں کے سامنے عریضہ لکھا اور شیشہ میں موجود پانی کے سپرد کر دیا اور مہمانوں سے محو گفتگو ہو گئے تھوڑی دیر بعد مہمانوں سے کہا کہ ابھی آپ کے سامنے ہی میں نے عریضہ لکھ کر اپنے مولا کی خدمت میں بھیجا۔ یہ برتن اور پانی آپ کے سامنے ہے بتائیے میرا عریضہ کہاں ہے؟ اب جو سب نے غور سے پانی میں دیکھا تو عریضہ کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اعتراض کرنے والے شرمندہ ہوئے۔ اس واقعہ میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے اگر آپ چاہتے تو عریضہ کے سلسلہ میں زبانی عقلی اور نقلی دلیلیں دے سکتے تھے لیکن آپ نے عملی نمونہ پیش کیا کہ جس کے بعد مشاہدہ کرنے والوں کے دل میں انکار تو بڑی بات شک بھی نہ پیدا ہو۔ لیکن یہ عملی نمونہ وہی پیش کر سکتا تھا اور پیش کر سکتا ہے جو نہ صرف زبان بلکہ اپنے عمل سے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے نزدیک ہو اور مستقل اپنے امام سے رابطے میں ہو۔
منقول ہے کہ کثرت مطالعہ کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا سینہ زخمی ہو گیا تھا اور مستقل درد رہتا تھا لیکن یہ درد آپ کو مطالعہ سے نہ روک سکا۔ آخر ایک دن امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا کرم ہوا اور درد کافور ہو گیا۔
== تالیفات ==
درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور مدرسہ سلطان المدارس کے جیسے دیگر انتظامی امور میں مصروفیات کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کو تصنیف و تالیف کے لئے وقت نکال پانا مشکل تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ آپ کی ہر تالیف اپنی مثال آپ ہے جنمیں سے چند کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
الافادات الباقریہ، مجالس باقریہ،
منہج الیقین و صحیفۃ المتقین،
المواعظ الباقریہ،
صوب الدیم النوافث،
القول المصون فی فسخ نکاح المجنون،
اجوبۃ المسائل (شرعی سوالات کے جوابات)،
اجوبۃ المسائل (فتاویٰ)،
الروضۃ الغناء فی عدم جواز استماع الغناء ،
سوال و جواب
اسداء الرغایب بکشف الحجاب عن وجہ السنۃ والکتاب،
تصحیح الاعمال،
رسالہ صومیہ اور
شہادت ولایت  ۔
اسکے علاوہ آپ کی کچھ کتابیں مفقود بھی ہو گئیں ہیں۔ باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ عظیم شاعر بھی تھے۔ آپ نے عربی زبان میں اشعار کہے ہیں۔ منقول ہے کہ سلطان المدارس لکھنو کے سابق استاد سبط حسن  نے ایک دن ناساز طبیعت کے سبب چھٹی کی درخواست بھیجی جو منظوم عربی زبان میں تھی۔  باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ نے منظوم عربی میں ہی درخواست کی منظوری تحریر فرمائی۔
== اولاد ==
اللہ نے آپ کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کی۔
آیۃ اللہ سید محمد رضوی  (سابق پرنسپل سلطان المدارس لکھنو)
حافظ نہج البلاغہ، مفسر صحیفہ سجادیہ آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ (سابق پرنسپل سلطان المدارس لکھنو)
مولانا سید رضی رضوی طاب ثراہ
بڑی بیٹی آیۃ اللہ العظمیٰ سید حسن رحمۃ اللہ علیہ (ساکن کربلائے معلی عراق) کی زوجہ تھیں۔
منجھلی بیٹی آیۃ اللہ سید حسین رحمۃ اللہ علیہ کی زوجہ تھیں۔
چھوٹی بیٹی آقائے شریعت حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید کلب عابد نقوی طاب ثراہ کی زوجہ اور آفتاب شریعت مولانا سید کلب جواد نقوی صاحب قبلہ امام جمعہ لکھنو کی والدہ گرامی تھیں۔
== غروب آفتاب ==
16 شعبان المعظم 1346 ہجری بروز جمعرات صبح دس بجے یہ آفتاب علم و عمل کربلائے معلی میں غروب ہو گیا۔ مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں قتل گاہ کے قریب دفن ہوئے۔
'''سید ذیشان حیدر جوادی''' سید ذیشان حیدر جوادی برصغیر کے مشہور شیعہ عالم دین اور مذہبی مصنف تھے، الہ آباد، ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔
== پیدایش ==
آپ 22 / رجب سن 1357ھ مطابق 17/ ستمبر سن 1938 عیسوی ، کراری، الہ آباد، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
== تعلیم ==
آپ کے والد مولانا سید محمد جواد علم و فضل میں نمایاں شخصیت کے مالک تھے اور قصبہ جلالی ضلع علی گڑھ میں ایک مدت تک پیش نماز تھے ـ
آپ نے ابتدائی تعلیم خود کراری کے مدرسہ امجدیہ میں حاصل کی ـ اور پھر سن 1949عیسوی میں مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں داخل ہوئے ـ
مدرسہ ناظمیہ کی تعلیم کے اختتام کے بعد درجہ اجتہاد کے حصول کے لیے سنہ 1955ء میں آپ نجف اشرف (عراق) چلے گئے۔
نجف اشرف میں تقریبًاً دس سال تحصیل علم میں صرف کئے۔
== اساتذہ ==
* آیت اللہ سید محمد باقر الصدر،
* آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی،
* آیت اللہ سید محسن طباطبائی حکیم،
* شہید محراب آیت اللہ سید اسداللہ مدنی تبریزی،
* آیت اللہ شیخ محمد تقی آل راضی،
* آیت اللہ حسین راستی کاشانی
* آیت اللہ محمد علی مدرس افغانی سے کسب فیض کیا، خصوصا آیت اللہ سید محمد باقر الصدر آپ پر بہت مہربان تھے۔
سنہ 1965ء میں آپ ہندوستان واپس آئے اور تقریبًا 1978ء تک الہ آباد کی مسجد قاضی صٓاحب میں پیش نمازی کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام انجام دیا۔
== تصنیف اور تالیف ==
آپ کا شمار کثیر التصانیف علما میں ہوتا ہے، آپ کی سرعت قلم کو خود آپ کے استاد آیت اللہ سید محمد باقر الصدر حیرت و استعجاب کی نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے ـ
تحریری کام آپ نے علم دین حاصل کرنے کے دوران ہی شروع کردیا تھا، ظاہرا سب سے پہلے آپ نے کتاب سلیم بن قیس ہلالی (اسرار آل محمد) کا اردو میں ترجمہ کیا ـ
نجف اشرف میں ہی ابوطالب مومن قریش، علامہ عبداللہ خنیزی کی تصنیف کا ترجمہ پندرہ دن میں مکمل کردیا ـ
قارئین کی سہولت کے لیے علامہ جوادی کی کتب کی فہرست کو یہاں پر جدول کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے:
== ترجمہ ==
* ترجمہ و تفسیر قرآن مجید (انوار القرآن)
* تالیف و ترجمہ احادیث قدسیہ
* ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ/ امام زین العابدین علیہ السلام
* ترجمہ و شرح نہج البلاغہ/علامہ سید شریف رضی
* ترجمہ مفاتیح الجنان/ محدث شیخ عباس قمی
* اسرار آل محمد (کتاب سلیم بن قیس ہلالی)/ سلیم بن قیس ہلالی
* ہمارے اقتصادیات/ آیت اللہ سید محمد باقر الصدر
* اسلامی بینک/ آیت اللہ سید محمد باقر الصدر
* فدک (تاریخ کی روشنی میں)/ آیت اللہ سید محمد باقر الصدر
* تشیع اور اسلام/ آیت اللہ سید محمد باقر الصدر
* انوار عصمت (الخصال کا خلاصہ)/ شیخ صدوق
* ہماری عزاداری علامہ/ عبد الحسین امینی
* شہداء الفضیلۃ/ علامہ عبد الحسین امینی
* امام جعفر صادق اور مذاہب اربعہ/ علامہ اسد حیدر
* نظریہ عدالت صحابہ/ علامہ احمد حسین یعقوب
* ابوطالب مومن قریش/ علامہ عبداللہ خنیزی
* اہل بیت (قرآن و سنت کی روشنی میں)/ آیت اللہ محمد محمدی ری شہری
* نص و اجتہاد/ علامہ سید شرف الدین موسوی عاملی
* فلسفہ انقلاب امام حسین/ علامہ شیخ یحیی نوری
* تہذیب قلب و نظر/ علامہ حسین بن محمد حلوانی
* مکاتب خلافت و امامت کے امتیازی نشانات / علامہ سید مرتضی عسکری
* خطائے اجتہادی کی کرشمہ سازیاں/ علامہ سید مرتضی عسکری
* مجھے راستہ مل گیا/ علامہ محمد تیجانی سماوی
* مرآۃ الرشاد/ علامہ شیخ عبد اللہ مامقانی
* احکام شرعی/ آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم موسوی خوئی۔
== تصانیف ==
* نقوش عصمت
* مطالعہ قرآن
* اصول و فروع
* ذکر و فکر
*  قمر بنی ہاشم
* اصول علم الحدیث
* علم رجال
* فروع دین
* خاندان اور انسان
* کربلا
* نماز (قرآن و سنت کی روشنی میں)
* پردہ (قرآن و سنت کی روشنی میں)
* حی علی الصلاہ
* حی علی الفلاح
* عورت اور شریعت
* اسلام کا مالیاتی نظام
* اسلام کے تقاضے
* اعمال ماہ رمضان المبارک
* اعمال روز عاشوراء
* اجتہاد و تقلید
* فتنہ صحابیت
* پاکیزہ معاشرہ
== کتب مجالس ==
* محافل و مجالس (حصہ اول)
* محافل و مجالس (حصہ دوم)
* عرفان رسالت
* اسلام دین عقیدہ و عمل
* بضعۃ الرسول
* == مجموعہ تقاریر ==
* عقیدہ و جہاد
* کربلا شناسی
* رسالت الٰہیہ
* حسین منی انا من حسین
* خلق عظیم
* توحید (زندگی کا آخری عشرہ مجالس)
== شعری مجموعہ ==
* سلام کلیم
* کلام کلیم
* پیام کلیم
* بیاض کلیم
شروع میں آپ کی کتابیں الہ آباد میں مذہبی دنیا نامی ادارہ سے شائع ہوا کرتی تھیں ،ـ بعد میں ادارہ تنظیم المکاتب لکھنؤ سے شائع ہونے لگیں ـ
== شہر الہ آباد میں آپ کی خدمات==
سنہ 1965ء میں آپ نجف اشرف سے واپس آئے اور تقریبًا 1978ء تک الہ آباد کی مسجد قاضی صٓاحب میں پیش نمازی کے ساتھ ساتھ بہت سی دینی خدمات انجام دیں ـ
الہ آباد میں مذہبی معاشرہ کی تشکیل میں آپ کا نمایاں کردار ہے ـ
آپ نے کار خیر اور تنظیم خمس و زکوۃ نامی دو ادارے بھی قائم کیے جن کے ذریعہ اہل ثروت سے حقوق شرعیہ حاصل کرکے نادار لوگوں کی حاجتیں پوری کی جاتی تھیں۔
== جامعہ امامیہ انوارالعلوم کی تاسیس ==
شہر الہ آباد میں مدرسہ امامیہ انوارالعلوم آپ کی مستقل یادگار ہے اس مدرسہ کی تاسیس سنہ 1985ء میں عمل میں آئی ـ جس کی ادارت کے فرائض آپ کے بڑے فرزند مولانا سید جواد الحیدر جوادی انجام دے رہے ہیں ـ
اب تک اس مدرسہ سے کثیر تعداد میں طلاب علوم دینیہ زیور علم سے آراستہ ہو کر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے قم اور نجف کے حوزات علمیہ میں پہونچ چکے ہیں اور بہت سے طلاب، ہندوستان کے مختلف شہروں کے علاوہ بیرونی ممالک میں تبلیغ دین میں مشغول ہیں ـ
جب بھی آپ الہ آباد آتے تھے تو ہمیشہ نماز ظہرین اپنے مدرسہ، انوارالعلوم میں ہی پڑھاتے تھے اور بعد نماز طلاب سے قرآن و حدیث سے متعلق سوالات کرتے تھے اور اکثر اوقات مختلف موضوعات پر طلاب سے مقالات لکھواکر انہیں انعامات سے نوازتے تھے،ـ اس طرح طلاب میں مزید علم دین کا شوق پیدا ہوتا تھا ـ
علامہ جوادی اور بانی تنظیم المکاتب خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری کی محبت آپ کو کھینچ کر ادارہ تنظیم المکاتب میں لے آئی جہاں آپ پہلے کمیٹی کے رکن رہے، پھر نائب صدر اور آخر میں صدارت کے لیے منتخب ہوئے ـ
ادارہ کے پندرہ روزہ اخبار میں سوالات کے جوابات کا صفحہ آپ سے مخصوص تھا ـ
== ابوظبی میں قیام ==
سنہ 1978ء میں مومنین ابوظبی کی دعوت پر تبلیغ دین کی خاطر آپ مستقل طور پر ابوظبی میں سکونت پزیر ہوگئے جہاں آپ مسجد رسول اعظم کے پیش نماز تھے اور وہیں رہ کر آپ نے اہم کتابوں کی تصنیف کا کام انجام دیا ـ اسی دوران آپ نے یورپ، امریکا، افریقہ، کینیڈا اور دنیا کے دیگر ممالک میں تبلیغ دین کی خاطر سفر کیے اور سنہ 1998ء تک آپ کا قیام ابوظبی میں رہاـ
== انقلاب اسلامی ایران سے لگاو ==
انقلاب اسلامی کے بعد ایران کے علمی حلقوں میں علامہ جوادی کا بہت وقار تھا ـ لندن اور ایران وغیرہ میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنسوں میں آپ کو ہمیشہ دعوت دی جاتی تھی اور فصیح عربی زبان میں آپ کی تقاریر بہت پسند کی جاتی تھیں ـ
آپ کی وفات سے کچھ عرصہ قبل، ایران کے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آپ کی علمی اور تبلیغی خدمات سے متاثر ہو کر آپ کو مہاراشٹر اور جنوبی ہندوستان کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کیا تھا اور اسی وجہ سے آپ سنہ 1998ء میں ابوظبی چھوڑ کر بمبئی منتقل ہو گئے تھے ـ وہاں آپ نے ادارہ اسلام شناسی قائم کیا تھا ـ
جب آپ ابوظبی سے بمبئی کے لیے روانہ ہوئے تو مومنین ابوظبی نے آپ سے وعدہ لیا تھا کہ ہرسال محرم کے پہلے عشرہ اور ماہ رمضان میں شبہای قدر کی مجالس آپ ابوظبی میں ہی خطاب کریں گے ـ
اس وعدہ پر عمل کرتے ہوئے آپ 1421ھ کے محرم میں بھی ابوظبی گئے تھے ـ
== وفات اور مدفن ==
وفات 10 / محرم (عصر عاشور) سن 1421ھ مطابق 15/ اپریل سن 2000 عیسوی بروز شنبہ ابوظہبی میں علامہ جوادی کا انتقال ہوگیا اور اپ کو ابوظبی میں تکفین کے بعد الہ اباد لاکر دفن کیا گیا ۔
1421ھ مطابق 15/ اپریل سن 2000 عیسوی کے محرم میں عاشور کے روز حسب معمول آپ نے اعمال کرائے ، مجلس شہادت پڑھی، نماز ظہرین پڑھائی ، جلوس عزا کی قیادت کی ، فاقہ شکنی کے بعد آپ استراحت کے لیے اپنی بیٹی کے گھر چلے گئے، وہاں طبیعت خراب ہونے لگی تو ایمبولینس کے لیے فون کیا گیا، جب تک ایمبولینس آئی آپ کا انتقال ہو چکا تھا ـ
مجیدیہ اسلامیہ انٹرکالج کے میدان میں مولانا سید علی عابد الرضوی نے نماز جنازہ پڑھائی اور ہندوستانی اعتبار سے 12/ محرم 1421ھ مطابق 18/ اپریل سنہ 2000ء کو محلہ دریا آباد کے قبرستان میں ماں کے پہلو میں آپ کو سپرد لحد کیا گیا  <ref>علامہ سید ذیشان حیدر جوادی، [http://www.maablib.org/scholar/life-of-allama-zeeshan-haider-jawadi/ maablib.org]</ref>۔
'''سید محمد دہلوی'''
== حالات زندگی ==
آپ پیتن ہیڑی ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔
مولوی آفتاب حسین مرحوم، کہ جو آپ کے بچپن میں ہی رحلت فرما گئے۔
آپ 20اگست 1971ء اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے۔
== تعلیم و تربیت ==
آپ شمس العلماء سید عباس حسین جارچوی، دہلی میں مولوی مرزا محمد حسن مرحوم، مولوی سید محمد ہارون زنگی پوری مرحوم، لکھنؤ مدرسہ ناظمیہ میں سید نجم العلماء، مولوی سید مقبول احمد مرحوم سے فیض علم حاصل کیا۔
== علمی خدمات ==
سید محمد دہلوی کی کتاب '''نور العصر''' کے مقدمے میں علامہ مرتضٰی حسین صدر الافاضل لکھتے ہیں کہ ” اس کتاب میں [[قرآن|قرآن مجید]]،تفسیر، حدیث، عقائد،کلام اور آسان فلسفہ دیانت، مسلمانوں کے مسلمات اور اکابر علماء اسلام کے ارشادات ہیں۔ سادی اور عام فہم اور نتیجہ خیز دلیلیں ہیں۔ عقل کی روشنی میں مذہب شیعہ کا بیان ہے۔ آیات کے فیضان سے امامت پر استدلال ہے اور قرآنی شواہد کی امداد سے حضرت امام آخر الزماں علیہ الصلاۃ والسلام کی معرفتِ کے لیے دعوت دی ہے۔ معقول حقائق کے لیے مواد مہیا کیا ہے اور بات سمجھنے کے لیے قندیل نور روشن کی ہے۔
آپ خطابت میں وہ مقام حاصل کیا کہ خطیب اعظم کا لقب پایا۔ سادات بارہہ کے لیے انہی سے ایک شاندار بورڈنگ بنوایا۔ بمبئی میں قیصر باغ جیسی تعمیر آپ کی پرخلوص جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ دہلی ہال اور جھنگ کا یتیم خانہ آپ کے جذبوں کا ترجمان ہے۔ 1931ء سے انجمن وظیفہ سادات و مومنین کے رکن تھے اور اس ادارے کی بہتری کے لیے کام کیا۔ لکھنؤ کے تاریخی ایجی ٹیشن میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ ستر برس کی عمر اپنی جواں ہمتی اور بہادرانہ پامردی کے ساتھ ایک انتھک سپاہی، ایک بے پروا مجاہد اور ایک نڈر قائد کی طرح پوری قوم کی قیادت فرمائی <ref>سید محمد دہلوی، [http://www.maablib.org/scholar/khateeb-e-azam-qaed-e-marhoom-allama-syed-muhammad-dehlvi/ maablib.org]</ref>۔
== قومی خدمات ==
مارچ 1948ء میں اس ادارہ کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب چند روایتی رہنماؤں نے  '''آل پاکستان شیعہ کانفرنس''' کے پلیٹ فارم سے ایک قرارداد منظورکروائی جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھاکہ ”ہم شیعان حیدر کرار کے پاکستان میں وہ ہی حقوق ہیں جو دوسرے اہلسنت برادران کے ہیں اور دیگر مسلمانوں سے الگ ہمارے کوئی حقوق نہیں ہیں” ۔
لہذاجب اس کی خبر  مفتی جعفرحسین قبلہ اور حافظ کفایت حسین کو ہوئی تو انہوں نے دور اندیشی کے ساتھ انتہائی سخت رد عمل کا اظہارکیا اور کہا کہ ”یہ غلط ہے کہ ہمارے دوسرے مسلمانوں سے الگ کوئی اورحقوق نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں سے ہماری کچھ الگ خصوصیات اورحقوق ہیں کہ جن کے تحفظ سے ہم دستبردارنہیں ہوسکتے ہیں”۔
=== ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان ===
مذکورہ قرارداد کے چند روز بعد ”ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان” کا لاہور میں قیام عمل میں آیا اورمفتی جعفر حسین مرحوم پہلے صدر،حافظ کفایت حسین مرحوم نائب صدر، سیداظہرحسین زیدی مرحوم جونیئرنائب صدر پروفیسر صادق حسین قریشی مرحوم جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
1949ء میں مفتی جعفر حسین مرحوم تعلیمات اسلامیہ بورڈ کے رکن نامزد ہو گئے۔ اکتیس علماء کے بائیس نکات اور تحریک ختم نبوت میں اسی پلیٹ فارم سے حصہ لیا گیا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ اور دیگر تنظیمیں بھی روائیتی ہوتے چلے گئے جب کے مسائل بڑھتے گئے۔ پہلے تو اقتدار کی چومکھی دوڑ جاری رہی پھر ایوب خان کا مارشل لاء آ گیا، عائلی قوانین آ گئے، سارے اوقاف پر حکومت نے قبضہ کر لیا۔
1963ء میں سانحہ ٹھیڑی، سندھ میں پیش آیا اس پر کوئی خاص احتجاج و دادرسی نہ ہو سکی۔ درسی کتب میں دل آزار مواد شامل ہو گیا۔ دینیات کے نام پر ایک خاص نکتہ نظر کو پڑھایا جانے لگا۔ عزاداری کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی ہونی شروع ہو گیں۔ شیعہ افسران سے تعصب برتا جانے لگا، انہیں اہم ذمہ داریوں سے علیحدہ کیا جانے لگا۔ غرضیکہ مسائل بڑھتے چلے گئے۔
=== پہلا منظم اجتماع ===
ان حالات میں سید محمد دہلوی مرحوم نے 5، 6، 7 جنوری 1964ء کو کراچی میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا منظم اجتماع امام بارگاہ شاہ کربلا، رضیہ کالونی، کراچی میں منعقد ہوا جس میں دو سو سے زیادہ علماء کرام،اور ممتاز شیعہ رہنماؤں نے شرکت کی۔ تمام مسائل پر تفصیلی گفتگو کے بعد مجلس عمل علمائے شیعہ تشکیل دی گئی اور اتفاق رائے سے خطیب اعظم مولانا سید محمد دہلوی مرحوم کو اس کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ طے پایا کہ درج ذیل مطالبات حکومت کو پیش کئے جائیں:
* شیعہ طلباء کے لیے مدارس میں علیحدہ دینیات کا انتظام
* شیعہ اوقاف کے لیے حکومت کی زیر نگرانی شیعہ بورڈ کا قیام
* تحفظ عزاداری
* درسی کتب سے قابل اعتراض ودل آزار مواد کا اخراج
آپ کے دور ِ
== دوران قیادت خدمات ==
قیادت کوایک ترتیب دی گئی ہے اس کی ایک جھلک قارئین کے سامنے آ جائے گی:
* 5، 6، 7 جنوری 1964ء۔ کراچی میں علماء کا اجلاس اور مطالبات کا تعین، مجلس عمل علمائے شیعہ اور انتخاب
* 23،فروری1964ء مطالبات کے سلسلے میں وفد گورنر امیر محمد خان سے ملا۔ انہوں نے غور کرنے کا کہہ کر ٹال دیا۔
* 3،مارچ،1964ء صدر پاکستان سے ملاقات کی۔ وعدہ کیا جو پورا نہ ہوا۔
* 14، مئی،1964ء صدر پاکستان سے کراچی میں ملاقات کی اور وعدہ یاد دلایا۔ اس نے سیکرٹری تعلیم سے ملنے کو کہا۔
* 13،اگست1964ء کو سیکرٹری تعلیم سے راولپنڈی میں ملاقات کی جو سودمند ثابت نہ ہوئی تو پنڈی کنونشن طلب کیا گیا۔
* 30،29،28 اگست1964ء کو راولپنڈی میں عظیم الشان کنونشن منعقد ہوا۔ تیس ہزار سے زائد مؤمنین نے شرکت کی۔ پاس کردہ ریزولیوشن حکومت کو بھیجا مگر کوئی جواب نہیں آیا۔
* 25، اکتوبر،1964ء آل پاکستان یوم احتجاج منایا گیا۔ حکومت کو ہر جگہ سے خطوط اور ٹیلی گرامز دئے گئے مگر حکومت کی طرف سے خاموشی رہی۔
* 30، نومبر،1964ء پچاس افراد مشتمل علماء و زعماء نے لاہور میں صدر سے ملاقات کی اور صدر نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔
* جنوری،1965ء قائد ملت سید محمد دہلوی نے ایک چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا مگر گورنر نے اپنے دوست کا نام کمیٹی میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ایک سال تک کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہونے دیا۔
* 28،27،اگست،1966ء کو ملتان میں کنونشن منعقد ہوا۔ ملک بھر سے نمائندگان شریک ہوئے۔ حکومت سے پر زور مطالبہ کیا گیا کہ وہ شیعہ مطالبات کو منظور کرے مگر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔
* 1965,ء،1966ء میں پورے ملک میں شیعہ مطالبات کمیٹیاں قائم کر دیں گیں۔
* 6،نومبر,1966ء کو جھنگ میں کونسل کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ملک بھر سے نمائندگان نے شرکت کی۔
* 12،11فروری,1967 کو کراچی میں ورکرز، ممبران کونسل اور مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا مگر بے سود۔
* 4،3جون، 1967ء عظیم شان جلسے کا اعلان کیا۔ جلسہ سے قبل گورنر جنرل موسیٰ سے ایک وفد نے ملاقات کی۔ اس نے کہا کہ اگر جلسہ ملتوی کردیا جائے تو مطالبات کی منظوری کے لیے کوشش کرے گا۔ مگر جلسہ ملتوی کرنے کے باوجود کچھ نہ ہوا۔
* 15،14 جنوری،1968 پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں ٹیلی گرام و خطوط لکھ کر حکومت سے مطالبات کی منظوری کےلیے کہا گیا۔
* 12،11،10فروری,1968 حیدرآباد میں کنونشن طلب کیا گیا گورنر موسٰی نے اس کی شدید مخالفت کی۔ علماء کرام و مندوبین کی حیدرآباد میں داخلہ پر پابندی لگا دی لیکن وزیر داخلہ کے وعدہ پر کنونشن ملتوی کر دیا گیا مگر وعدہ وفا نہ ہؤا۔
* 25مارچ1968ء کو لاہور میں ایک میٹنگ بلائی گئی۔ اس موقع پر وزیر داخلہ سے ایک وفد ملا تو اس نے بتایا کہ مطالبات حکومت کے زیر غور ہیں۔
* 7،6جولائی،1968ء کو حیدر آباد میں مجلس مشاورت کا اجلاس ہوا جس میں مطالبات کے حصول کے لیے مختلف طریقوں پر غور ہوا۔
* 3،2 نومبر،1968ء راولپنڈی میں جلسہ عام بلایا گیا۔ دس ہزار سے زائد مؤمنین جمع ہو گئے۔ جبکہ سینکڑوں علاقہ جات سے کفن بر دوش دستوں کی اطلاعات آنی شروع ہو گیں۔ پہلا 72 افراد پر مشتمل دستہ 2, نومبر کو پہنچنا تھا کہ حکومت نے مطالبات کی منظوری کا اعلان کر دیا۔
* حکومت نے مطالبات تو منظورِ کر لیے مگر عمل درآمد میں تساہل سے کام لیتی رہی۔ علیحدہ شیعہ دینیات بھٹو کے دور میں احتجاجی دھرنے کے بعد جاری ہوئی۔1976ء میں میٹرک کا امتحان اسی دینیات پر ہوا۔ مگر اسے بھی برقرار نہ رکھ سکے۔ یہ ایک جھلک ہے کس طرح پوری قوم کو منظم کر کے دن رات ایک کر کے پھر پور جد وجہد کی۔ آپ کا یہ پہلو آپ کی پہچان تو ہے مگر اس سے کم آگاہی تھ <ref>سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020</ref>۔
== لائبریری ==
آپ نے کراچی میں ایک نادر کتب پر لائبریری بنائی جبکہ ہندوستان میں آپ کا کتب خانہ ہندو بلوائیوں نے جلا دیا تھا۔
'''اسماعیلیہ''' اسماعیلیہ خالصہ یعنی وہ جماعت جو امام اسماعیل کی حیات وغیبت کی مقر
اور ان کی واپسی کی متوقع تھی۔
دوسری جماعت : مبارکیہ کے نام سے موسوم ہوئی یہ اسما عیلیہ فرقہ کی سب سے قدیم فروع معلوم ہوتی ہے ان کے نزدیک امام اسماعیل کے بعد محمد بن اسماعیل امام ہیں اور محمد کو یہ لوگ خاتمہ الائمہ جانتے ہیں اور کہتے ہیں وہی قائم منتظر اور مہدی موعود ہیں۔ مبارکیہ منسوب ہیں مبارک کی طرف اور وہ محمد بن اسماعیل بن امام جعفر صادق کا غلام تھا اور خوشنویسی اور نقش و نگار اور دستکاری میں کمال حاصل تھا۔ اس غلام مبارک نے امام اسماعیل کی وفات کے بعد کوفے میں شیعہ کو مذہب اسماعیلیہ کی ترغیب دی اور اپنے پیروکاروں کا نام مبارکیہ رکھا بعض اس فرقے کو قرامطہ بھی کہتے ہیں اس لئے کہ مبارک کا لقب قرمط تھا۔ ابن خلکان کی ایک روایت اردو ترجمہ مہدی کے مطابق اس طرح ترتیب آئے گی ۔ امام جعفر صادق، امام اسماعیل امام محمد (المکتوم ) عبدالله (الرضی ) احمد (الوفی ) الحسین (النقی ) عبد الله (المهدی) تیسری جماعت : شہرت واثر کے اعتبار سے تیسری جماعت کو سبقت حاصل ہے جو قرامطہ کے نام سے معروف ہوئی بعض لوگ قرامطہ کو اسما عیلیہ کا مترادف خیال کرتے ہیں۔
== قرامطہ کا معنی ==
قرامطہ لفظ جمع کا صیغہ ہے اس کا واحد قرمطی ہے جو قرمط کا اسم منسوب ہے کہا جاتا ہے قرمط لقب ہے حمدان بن اشعت کا جس نے اس فرقے کی بنیاد ڈالی قرمط کے عربی زبان میں معنی نزد یک نزدیک قدم ڈال کر چلنے کے ہیں۔ حضرت علی کے بعد امامت درجہ بہ درجہ منتقل ہو کر امام جعفر صادق کے حصہ میں آئی ان کے بعد ان  کے بیٹے امام اسماعیل میں آگئی ۔ قرامطہ دنیا کو بارہ جزیروں میں تقسیم کرتے ہیں ہر ایک جزیرہ میں ایک حجت کی موجودگی لازمی ہے ۔ جس کو نائب امام تصور کرتے ہیں حجت کا نائب داعی اور داعی کا نائب (ید ) ہوتا ہے۔ حجت بمنزلہ باپ دائی بمنزلہ ماں اور ید بمنزلہ بیٹا کے ہیں۔ قرامطہ کے چار درجے ہیں امام، حجت ، داعی اور یک ۔ قرامطہ کا قول تھا کہ حضور کے بعد صرف سات ائمہ ہوئے ہیں حضرت علی سے امام جعفر صادق تک اور ساتویں امام محمد بن اسماعیل بن جعفر ہیں محمد بن اسماعیل مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں ( قائم اور مہدی وہی ہیں ) اور ان کو رسالت کا مرتبہ بھی حاصل ہے۔
== خطابیہ ==
شیعہ فرقوں میں وقتا فوقتا امامت کے تعین سے اختلاف ہوتا گیا جو اپنا جدا گانہ مسلک اختیار کر لیتے تھے اس طرح اسماعیلیہ میں خطابیہ کے باقیات بھی شامل ہو گئے چونکہ خطابیہ فرقہ نے ایک مخصوص عقائد اور ایک نہایت موثر طریقہ کار اپنا لیا تھا اس طرح خطابیہ کی شمولیت اسماعیلیہ فرقہ کی تقویت کا سبب ہوگئی ۔ خطابیہ اور اسماعیلیہ کے روابط کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابومحمد حسن بن موسیٰ نوبختی جو تیسری صدی کے ایک معتبر شیعہ مصنف تھے ایک کتاب فرق الشیعہ میں اسماعیلیہ اور خطابیہ کو باہم متحد قرار دیا ہے اس طرح خطابیہ کا ایک فرقہ محمد بن اسماعیل کے فرقہ میں داخل ہو گیا خطابیہ اور معیلیہ کی آمیزش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیا فرقہ بنا جو بعد میں اسماعیلیہ کے نام سے موسوم ہوا۔
== خطابیہ فرقے ==
خطابیہ فرقے کے بانی ابو الخطاب محمد بن ابی زینب الاسدی ہے بعض کا عقیدہ یہ تھا کہ امام جعفر صادق کی روح ابوالخطاب میں حلول ہوگئی تھی اور ابوالخطاب کے بعد وہی روح محمد بن اسماعیل اور ان کی اولا د میں حلول کرگئی ۔ ( ابوانتخاب کے رقے کو خطابیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ابو الخطاب کو خطابیہ کہا گیا ہے ) ۔ خطابیہ کہتے ہیں کہ النبیت نور ہے عالم نبوت اور امامت ان انوار سے کبھی خالی نہیں رہتا۔ خطابیہ ہر مومن کی گواہی کو حلف کر کے سچا جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مومن کبھی جھوٹا حلف نہیں کرتا ۔ بعض اشخاص جو اس نواع کے عقائد رکھتے تھے اس فرقے سے علیحدہ ہو گئے اور ایک نیا فرقہ قائم کیا اسی فرقے کو قرامطہ کہتے ہیں۔ ابوالخطاب کو بعض مورخین نے قرامطہ کے معتقدین میں شمار کیا ہے ان کے اقوال و تصانیف قرامطہ اور اسماعیلیہ میں عام طور پر رائج تھیں ان کو بعض شیعہ فرقے مستند خیال کرتے تھے شیعہ محدثین نے ان کی بعض روایات اس سے نقل کی ہیں لیکن سنی محد ثین اس کو ساقطہ الاعتبار قرار دیتے ہیں۔
== باطنیہ فرقہ ==
باطنیہ فرقہ : باطنی شیعہ کا شمار غالی شیعوں میں ہوتا ہے غالی شیعہ کے اٹھارہ فرقے ہیں۔ سب سے پہلا فرقہ سبائی ہے ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی نہ مرے نہ قتل ہوئے بلکہ اُن کا ہم شکل دوسرا شخص قتل ہوا ۔ سبائی اور باطنی مذہب میں قرامطہ نصیریه، دراز باببه ، بہائیہ، کاملیہ، خطابیہ، آغا خانی اور اسماعیلیہ فرقے اور مذہب بھی پیدا ہوئے ۔ ان فرقوں میں وحدت الوجود الاتحاد ہے اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ واحد کسی مخلوق رسول یا ولی اللہ کے اندر حلول کرتا ہے یعنی کہ اللہ انسانی شکل میں اوتار لیتا ہے۔ وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ساری چیزیں مثلاً پہاڑ دریا سمندر اور حیوانات سب کے سب اللہ ہیں۔
== اسماعیلی فرقہ میں امامت ==
اسماعیلی فرقہ میں امامت : اسماعیلی شیعہ فرقہ کی ایک شاخ ہے اور امام جعفر صادق کے بیٹے امام اسماعیل کی طرف منسوب ہے۔ امام جعفر صادق تک اثنا عشری اور اسماعیلی دونوں متحد ہیں ۔ ان کے بعد اثنا عشری اور اسماعیلی فرقے الگ ہو جاتے ہیں امام جعفر صادق کے دو صاحبزادے۔ (1) بڑے بیٹے کا نام اسماعیل (۲) چھوٹے بیٹے کا نام موسیٰ کاظم اسماعیل اپنے باپ امام جعفر صادق کے جانشین تھے لیکن امام اسماعیل کا انتقال امام جعفر صادق کی زندگی میں ہو گیا تھا۔ شیعوں کے نزدیک چونکہ امامت منجانب اللہ کے ہے اس لیئے اسماعیلی فرقہ کے لوگ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اگر کسی امام کی نامزدگی ہو جائے اُس کے بعد اخراج نہیں ہوتا اس لئے اسماعیلی فرقہ اسماعیل ہی کو امام مانتے ہیں۔ لیکن اثنا عشری کے نزدیک چونکہ اسماعیل مر گیا ہے اور جو مر گیا ہے وہ امام نہیں ہو سکتا۔ اسماعیلی اس بات کے قائل ہیں کہ امام اسماعیل نے وفات نہیں پائی بلکہ روپوش ہو گئے ہیں امام اسماعیل کو زندہ مانتے ہیں اور آغا خان روحانی پیشوا ) اُن کی شاخ کے حاضر امام ہیں اسماعیلی فرقہ اثنا عشری اماموں میں صرف پہلے چھ اماموں کے قائل ہیں ۔ شش امامیه : (1) حضرت علی، (2) امام حسن (۳) امام حسین (۴) امام زین العابدین (۵) امام باقر (۶) امام جعفر صادق (۷) امام اسماعیل ۔ دوسرے شیعہ اثنا عشری امام حسن عسکری کے بیٹے ( امام محمد مہدی ) تک یہ فرقہ امامیہ ، اثناعشری یا صرف شیعہ کے نام سے معروف ہے۔ لیکن اسماعیلی اثنا عشری نہیں ہیں اس فرقے کے نزدیک ہر ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے اس لئے اس فرقے کو باطنی شیعہ بھی کہتے ہیں۔ باطنی شیعہ کہتے ہیں کہ کتاب وسنت میں وضو تمیم ، نماز ،روزہ ، زکوۃ، حج، بهشت ، دوزخ اور قیامت وغیرہ کی نسبت جو کچھ وارد ہوا ہے دو ظاہر پر محمول نہیں سب کے اور ہی معنی ہیں اور جو معنی لغت مفہوم میں ہیں وہ شارع کے مراد نہیں مثلا حج سے مراد امام کے پاس پہنچنا ہے اور روزہ سے مذہب کا مخفی رکھنا اور نماز سے مراد امام کی فرمانبرداری وغیرہ ہیں۔
اسماعیلیہ کا نظریہ ہے کہ امام اسماعیل موت کے بعد دُنیا میں لوٹ آنے کے قائل ہیں۔ اسماعیلیہ کا قول ہے کہ ایک جز والٰہی نے ائمہ میں حلول کیا حضرت علی بن ابی
طالب مستحق امام ہیں۔ اسما عیلیہ کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر ومختار نہیں ہے وہ جب کسی چیز کو پسند کرتا ہے تو وہ اُس سے بے اختیار موجود ہو جاتی ہے جیسے سورج کی شعاع بے اختیار نکلنے لگتی ہے۔
اسماعیلیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ نہ اللہ تعالیٰ صاحب ارادہ ہے بلکہ جو کچھ اُس سے صادر ہوتا ہے وہ اُس کی ذات کو لازم ہے جیسے آگ کی گرمی اور آفتاب کی روشنی ۔ اسماعیلیہ کے نزدیک آئمہ میں عصمت کا ہونا شرط ہے۔ یہی نظریہ امامیہ فرقے کا بھی ہے ۔
== امامت کے بارے میں اسماعیلوں کا عقیدہ ==
اسماعیلیہ کا اماموں کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ عالم کبھی امام سے خالی نہیں ہوتا اور نہ ہو گا جو کوئی امام ہو گا اُس کا باپ بھی امام رہا ہوگا اور پھر اس کے باپ کا باپ اور یہ سلسلہ حضرت آدم تک جاتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ازل تک کیونکہ وہ عالم کو قدیم مانتے ہیں اس طرح امام کا بیٹا امام ہوگا اور خُدا کو امام سے پہچانا جاتا ہے اور بغیر امام کے خداشناسی حاصل نہیں ہوتی پیغمبروں نے ہر زمانہ میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے شریعت کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن اصل باطن یہی ہے۔
ایمیل امام اسماعیل و اولوالعز بھی کہتے ہیں اسماعیلیہ عقیدہ کے مطابق سات اشخاص اولو العزم کا مرتبہ رکھتے ہیں ۔ ( اولو العزم کا مطلب ہمت و صبر والے ) اس میں حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ، حضرت عیسی ، حضرت محمد ، حضرت علی اور محمد بن اسماعیل ہیں اسماعیلیہ کو سبیعہ بھی کہتے ہیں اور یہ نام اس فرقے کے عقیدے کی وجہ سے پڑا۔ کیونکہ ان کے نزدیک انبیاء شریعت پہنچانے والے صرف سات اشخاص ہیں۔
== اسماعیلی فرقے کے بانی ==
اسماعیلی فرقے کے بانی : عام طور پر اسماعیلی مصر کے فاطمی خلفاء کو اپنا سیاسی اور  مذہبی سرگردہ مانتے تھے۔ اسماعیلی فرقوں کا اختلاف ان کے خلفاء کی جانشینی پر ہوا اسماعیلی فرقے کے خلیفہ مولانا الامام المستنصر با اللہ علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ایک کا نام نزار تھا اور دوسرے کا نام مستعلی تھا خلیفہ کی وفات کے بعد ان دونوں میں جانشینی پر جھگڑا ہوا۔ فدائیان قلعہ الموت ایران سب نزار کے طرفدار تھے اور اہل یمن سب مستعلی کے طرفدار تھے۔ اس طرح خلیفہ مستنصر کے دونوں بیٹوں کے ماننے والوں کے دو فرقوں کا آغاز ہوا ۔
== مستعلویہ ==
مستعلویہ سے جو فرقہ چلا وہ مستعلی کہلائے بوہرے خلیفہ مستنصر کے چھوٹے بیٹے مستعلی کی جانشینی کے قائل ہیں۔ اپنا امام مانتے ہیں اور اپنا سلسلہ ان سے چلاتے ہیں اور اسماعیلی آغا خانی فرقے کی نفی کرتے ہیں اور آغا خان کی امامت کے منکر ہیں۔ مصر اور یمن کے اسماعیلی مستعلی کی امامت کے قائل ہیں اور قدیم مذہبی روایات کے پابند ہیں بوھروں کے ہاں یمن بہت مبارک بقیہ سمجھا جاتا ہے۔ خوجے بوہروں اور عام مسلمانوں کے عقائد و عبادات میں وہ اختلاف جو عام اسماعیلیوں کو فرقہ خــودماہل سنت سے ہے۔
== نزاریہ ==
نزاریہ سے جو فرقہ چلا اُس کی ترجمانی ( آغا خانی ) خوجے کرتے ہیں ۔ حسن بن صباح: اسماعیلیہ جماعت میں دو شخصوں نے بطور صاحب جریدہ کے نام پیدا کیا ہے ان میں سے ایک کا نام حکیم ناصر خسرو  اور دوسرے حسن بن صباح ۔ ہزاری عام طور پر خوجے کہلاتے ہیں نزاریہ کے سب سے بڑے داعی حسن بن صباح ہے جس کا پورا نام حسن بن علی بن محمد بن جعفر بن ج حسین بن الصباح الحمیری تھا۔ حسن بن صباح ایرانی مشخص جو شہر طوس میں رہتا تھا اپنا سلسلہ نسب قدیم عربی نژاد نامور صباح حمیر سے ملاتے ہیں اسماعیلیوں کے بڑے داعی حسن بن صباح نے حکیم ناصر خسرو کے زیر اثر خلیفہ مستنصر کی بیعت لی اور وہ نزار کی امامت کی تبلیغ کرتے تھے کہ خلیفہ مستنصر کے بعد نزار امامت کا حقیقی مالک ہے ایران میں حسن بن صباح نے دعوت نزار یہ پھیلانی شروع کی جس کا اثر تقریبا ڈیڑھ سو سال باقی رہا اس فرقے کے لوگ اب بھی موجود ہیں ۔
== حسن بن صباح ==
حسن بن صباح نے مشہور قلعہ الموت ( ایران کے نزدیک ایک نہایت دشوار گزار اور تقریبا نا قابل تسخیر پہاڑی قلعہ ہے جس کو الموت یعنی آشیانہ عقاب کہا جاتا ہے ) پر قبضہ کیا اور اپنے ماننے والوں کو ایسی تعلیم دی کہ وہ سب ان کے ادنی اشارے پر اپنی جان فدا کرتے تھے اس وجہ سے ان کو فدائی بھی کہتے ہیں۔ حسن بن صباح نے اسماعیلی مذہب کو نئے سرے سے ترتیب دیا تبلیغ کے نئے اصول وضع کئے اور اس نے ظاہری عبادت کی جگہ باطنی عبادت کو فرض کیا۔ آغا خان کا خاندانی پس م منظر نہ تو نزار سے چلا ہے نہ مستعلی سے لیکن پھر بھی آغا خانی نزاری کہلاتے ہیں ۔
== قاضی نعمان ==
قاضی نعمان: اہل سنت والجماعت کے نامور امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ہیں فاطمی مذہب میں قاضی نعمان دوسرے ہیں ، نسب نامہ ابو عبد اللہ نعمان بن محمد بن منصور بن احمد بن حيون اتمي الاسماعیل المغربی ہیں۔ جن کی کنیت ” ابوحنیفہ ہے فقہ حنفی کے امام ابو حنفیہ کی کنیت سے التباس کے ازالہ کے لئے مورخین اور محققین آپ کو آپ کے پڑ دادا حیون کی نسبت ابن حیون کہ کرممتاز کرتے ہیں۔ مورخین اور محققین کا آپس میں اختلاف ہے بعض ان کا مالکی مسلک بتاتے ہیں۔ بعض حلقے ان کو پیدائشی اسماعیلی خیال کرتے ہیں قاضی نعمان نے چار فاطمی خلفائے کے دور کو نہایت قریب سے دیکھا ہے پہلے خلیفہ مہدی کی حکمرانی کے ایام میں آپ نے ماتحت رہ کرنو برس تک خدمت کی اس کے بعد خلیفہ قائم بامر اللہ تیسرے خلیفہ منصور الفاطمی چوتھے مغر لدین اللہ کے دور میں عروج و کمال کی بلندیوں کو چھونے لگے۔
== فاطمی اسماعیلی فقہ ==
فاطمی اسماعیلی فقہ کے موئس اول فاطمی کتب کے مصنف اول۔ جامعہ میں پہلے پڑھائی جانے والی کتاب الاقتصار تھی برحال فاطمی کتب ، تاریخ مصر اور تواریخ قضاة مصر کے مطالعہ سے ثابت ہے قاضی نعمان کے بیٹے ابوالحسن علی بن نعمان جامعہ کے پہلے شیخ اور متولی تھے۔ قاضی نعمان کی مغرب میں امام عبداللہ المہدی سے ملاقات ثابت ہے اور انہی امام مہدی نے اپنی حکومت ۲۹۶ھ میں تشکیل دی تھی قاضی نعمان کی وفات ۳۶۲ھ میں ہوئی۔
قاضی نعمان جو عہد فاطمی کے بڑے مستند قدیم المثال فقیہ کے عالم گزرے ہیں۔ جس نے فقہ ، حدیث ، تاریخ، تاویل، عقائد ، مناظرہ، وغیرہ میں کہتا ہیں لکھیں۔ ان تصنیفوں کی تعداد چوالیس بتائی جاتی ہے جن میں سے تقریبا بائیس۔
کتابیں اسماعیلیوں کے خزانوں ( کتب خانوں ) میں موجود ہیں ۔ ( نوٹ اسماعیل کتب خانہ میں جو مذہبی کتابیں جمع کرتے ہیں اُن کو خزانہ کہتے ہیں۔ یعنی اسماعیلی دعوت کی کتابوں کا خزانہ ) قاضی نعمان کی کتابوں میں اہم فقہی کارنامہ '''دُعائم اسلام''' ہے جو اب تلک اسماعیلی عقائد اور فقہ کی ایک مستند کتاب جسے سند کا درج حاصل ہے۔ اس کتاب میں قرآن کو بحیثیت متن اور احادیث و سنت کو بحیثیت شرح پیش کیا گیا ہے جس میں عبادات معاملات کا مکمل نقشہ مرتب ہو جاتا ہے۔ ان ابواب میں ولایتہ ، طہارۃ ، صلوۃ ، زکوۃ ، صوم، حج ، جہاد، ہیبوع ، موادیث ، نکاح، طلاق وغیرہ کا ذکر ہے۔ اس فقہ کی دوسری تصنیف '''الایضاح''' ہے جس میں دو سو میں کرتا میں شامل ہیں ان کتابوں کے مصنف قاضی نعمان ابو حنیفہ النعمات بن محمد الیمی ہیں جو فاطمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے متعدد قلمی نسخے موجود ہیں مگر پوری کتاب تا حال شائع نہیں ہوئی اس کتاب میں سے الحاد اور المقدمات کو جناب آصف لتمر بن علی اصغر فیضی نے ۱۹۵۱ء میں مصر میں چھپوا کر شائع کیا۔
== دعائم الاسلام ==
دعائم الاسلام : جس کے دوجز ہیں اس میں فقہ کے احکام اور امامت پر بحث اور شرعی احکام لکھے ہیں ان کی تاویل ایک علیحدہ کتاب میں بیان کی ہے جس کا نام
تاویل دعائم الاسلام ہے۔
== تاویل دعائم الاسلام ==
تاویل دعائم الاسلام : ( دو جز و) فقہ کے احکام کی تاویلیں اسما عیلی دعوت کا نظم و نسق ۔ اس کتاب کا مکمل نام جو متن سے ظاہر ہے اس کتاب میں بیان شدہ احکامات اور فرائض کی باطنی تاویلات کا بیان ہے یہ کتاب اسماعیلی تاویلات کی اہم ترین بنیاد ہے ری عبادت کی جگہ باطنی عبادت کو فرض کیا۔ آغا خان کا خاندانی پس م منظر نہ تو نزار سے چلا ہے نہ مستعلی سے لیکن پھر بھی آغا خانی نزاری کہلاتے ہیں ۔
اساس ( اساس سے مراد حضرت علی ہیں ) اساس التاویل ، تاویل کے اصول اختلاف اصول المذاہب ۔ اسماعیلی مذہب کے اصول کا مقابلہ دوسرے  کے اصول سے ۔ افتتاح الدعوة وابتداء الدولته " ، قاضی نعمان بن محمد نے اس کتاب میں ظہور مہدی اور ابتدائی فتوحات کے متعلق ہے۔ شرح الا اخبار فی فضائل الائمہ الاظہار۔ اس کتاب کے آخری حصہ میں ظہور  کے متعلق حدیثیں ہیں ۔ تاویل کے بعد مذہبی فلسفے میں اسماعیلی اپنی اصطلاح حقیقت کہتے ہیں اس میں عالم کی ابتدا اور انتہاء رسالت و صابت ، امامت ، سمت ، بعث اور حشر وغیرہ کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ اسماعیلیہ عقیدہ کے طابق اپنے ائمہ کو خُدا کا اوتار یا مجسم خدا تصور کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں الہ ائمہ باہم باپ بیٹے کا رشتہ رکھتے ہیں لیکن باطن میں ایک روح ایک امام کے طالب سے منتقل ہو کر اُس کے جانشین میں آجاتی ہے اور یہ عقیدہ ہے کہ انسان کے حد اُس کی رُوح دوسرے انسان میں بھی منتقل ہوتی ہے ۔ اسماعیلی آغا خان کو ائمہ حکیم سیدناصر خسرو : حکیم سید ناصرخسرو کا پورا نام ابومعین ناصر بن خسر و بن حارث ہے ان کا وطن بلغ اور لقب " حجت یا " حجت خراسان و بدخشان تھا دعوت فاطمی سے پہلے وہ خراسان کے وزیر تھے۔ حسن بن صباح انہی کے زیر اثر سے اسماعیلی ہوئے ان کی تمام تصانیف فارسی میں ہیں سید ناصر کی تصانیف دیوان ، روشنائی نامه، سعادت نامه، وجه دین، دار المسافرین سفرنامه، دلائل المترین خوان حضرت علی کا اوتار تصور کرتے ہیں
الاخوان ، مصباح ، مفتاح ، دلائل گشائش دور ہائش ہیں۔ سلطان محمد شاہ نے فرمایا کہ حکیم ناصر خسرو با فرد مولانا رومی کے مثنوی کے فلسفے سے بھی کہیں زیادہ گہرا ہے گذشتہ زمانے میں حضرت عیسی ، پیر صدرالدین ، حکیم ناصر خسرو پیر شمس اور مولانا رومی جیسے انسان راہ حقیقت پر گامزن ہوئے ۔ ( کلام امام مبین حصہ اول ص ۳۵۵) اسماعیلیوں کے داعی حکیم  پیر شاہ ناصر خسر و علوی  کی شہرہ آفاق کتاب ” وجہ دین ( مطلب دین کا چہرہ ) جو فارسی سے اردو میں ترجمہ ہو افقہی موضوعات و مسائل کی تاویلات کا ایک عدیم المثال مجموعہ ہے ناصر خسرو کی کتاب  '''وجہ دین''' جو دو حصوں میں تاویل میں لکھی گئی ہیں۔ اسماعیلیوں کے ہاں تاویل اور حکمت کی کتا بیں بام افلاک ( یعنی عرش اعلیٰ ) کی سیڑھی کی مانند کے سمجھی جاتی ہیں۔
== تاویل کا معنی ==
تاویل کے عربی زبان میں معنی اول کی طرف لوٹنے کے ہیں شیعوں کے تمام فرقے تاویل کے قائل ہیں ۔ تاویل کو شریعت کی حکمت ، دین کا راز اور علم روحانی بھی کہتے ہیں ہر نبی اپنا ایک وصی مقرر کرتا ہے نبی کا کام وہ لوگوں کو شریعت کے ظاہری احکام بتائے اور وصی کا کام یہ ہے کہ وہ ان کو ان کی تاویلوں سے آگاہ کرے۔ چنانچہ حکیم ناصر خسرو نے بھی اسی تاویل کی اہمیت کے پیش نظر کتاب" وجہ دین کی اساس اکاون گفتاروں پر رکھی ہے۔ ہر دانشمند حقیقی اسماعیلی پر اکاون کے عدد کی حقیقت کھل جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اب سے تقریبا ۹۰۰ سو سال پہلے ناصر خسرو علم تاویل کی روشنی میں اکاون رکعات کی تاویلی پیش گوئی جان چکے تھے۔
== اسماعیلی دعوت کا نظام ==
اسماعیلی دعوت کا نظام : اسماعیلی شیعہ بی مرسل کو اطلق اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے کتاب و شریعت لاتے ہیں اور ظاہر بیان کرتے ہیں ۔ اسماعیلیوں کے عقیدے کے مطابق انبیاء ومرسلین میں سات " نطقا " ہیں اور ہرینی نافق کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ جسے اساس اور ایسی کہا جاتا ہے صامت" اس
لئے کہتے ہیں کہ وہ ظاہر کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں کی عادی کار ہوتے ہیں اور رومی صاحب تاویل:
* کتبی مظاہری شریعت کی تعلیم ۔
* تیجی کے بعد وہی جس کا دوسرا نام صامت ہے۔ عقیدہ یہ ہے کہ دورشو پیغمبر ہوتے ہیں جن میں سے ایک ناطق (نہیں) ہوتا ہے دوسران میں (صامت) بانی علوم کی تعلیم الاساس التاویل فی ذکر (آدم)
* اس کے بعد نام ظاہر ہی شریعت کی حفاظت اور باطنی علوم کی تعلیم ۔
* واقع السلاح داعی مطلق داعی الدعاۃ ۔ سب داعیوں کے صدر کو داعی الدمام کہتے ہیں داعی لوگوں کو امام کی طرف بلاتا ہے اور جو شخص داعی کی دعوت کا جواب ہوتا ہے اسے مستجیب کہتے ہیں اور جب مستجیب آمادگی ظاہر کرتا ہے پھر دائی اُس سے حید (میثاق لیتا ہے جسے اسماعیلی محمید الاولیا" کہتے ہیں۔
* مازون مستجیب سے عہد و میثاق لیتا ہے۔
مکاسر ان کے باطل مذہبوں کو رد کر کے اپنا مذہب بتاتا ہے مکاصر کے معنی توڑنے کے ہیں کیونکہ سویا عمل تاہیوں کو توڑتا ہے۔
== عيادات کے احکام کی چند تا ویلیں: ==
* حضور تاویل گناہوں سے نفس کو پاک کرنا حضرت علی کا اقرار کرنا کیونکہ وضو اور حضرت علی ہر ایک لفظ میں تین حروف ہیں۔
* کئی کرنا تاویل امام کا اقرار اور اس کی اطاعت کرنا۔
* منہ ہوتا، جہادیل امام اور سات ناطقوں اور سات اماموں کا اقرار کرنا کیونکہ 375 انسان کے چہرے میں سات سوراخ ہیں ۔
* سیدھا ہاتھ دھونا ، تاویل نبی یا امام کی اطاعت کرنا ۔
* بایاں ہاتھ دھونا ، تاویل وصی یا حجت کی اطاعت کرنا۔
* سرسح کرنا ، تاویل رسول خدا کا اقرار کرنا اُن کی شریعت پر چلنا۔
* سیدھے پاؤں کا مسح کرنا ، تاویل امام یا داعی کا اقرار کرنا۔
* بائیں پاؤں کا مسح تاویل حجت یا مازون کا اقرار کرنا۔
* دھونا ، طاعت کرنا۔
* مسح کرنا، اقرار کرنا۔
== نماز ==
نماز : نمازیں مجموعاً تین وجوہ سے ہیں جو فریضہ سنت اور تطوع کہلاتی ہیں تطوع کو نافلہ بھی کہتے ہیں۔
نماز فریضه شم (امام) پر دلیل ہے مست سے مراد امام زمان ہے یعنی چھ ائمہ کے بعد جو ساتویں امام ہوئے وہ متم کہلاتے ہیں۔ (نوٹ : تقریبا آدھی رات گذری ہو عربی زبان میں اس وقت کو منتصف اللیل کہتے ہیں یعنی مستم (امام) کی آخری حدود ہوتی ہے۔ جس میں اہل باطن اہل ظاہر سے اپنا حق دلا سکتا ہے یعنی ان کے لئے
انصاف کر سکتا ہے۔
نماز سنت حجت پر دلیل ہے جس کو متم ( امام زمان ) نے مقررفرمایا ہے۔
تطوع ، یعنی دائی پر دلیل ہے تطوع جس کا مطلب بیٹے کا بیٹا ہوتا ہے جو ماذون پر دلیل ہے اور وہ داعی کا قائم مقام ہوتا ہے نماز فریضہ امام کی دلیل ، سنت حجت کی دلیل ، نافلہ داعی کی دلیل ہے۔ نماز جمعہ ناطق کی دلیل ، نماز عید الفطر اساس کی دلیل ، نماز عید الضحی ، قائم قیامت علیہ افضل التحیہ والسلام کی دلیل ہے، نماز
جنازہ مستجیب کی دلیل ، طلب بارش کی نماز ، خلیفہ قائم کی دلیل ، نماز کسوف جو سورج گرہن یا چاند گرہن کے موقع پر پڑھی جاتی ہے امام مستور کی دلیل ہے۔ ان کو نمازوں کے بعد نماز خوف نماز مسافر، نماز حاضر پوری وغیرہ بھی نمازیں ہیں۔ نماز کی وہ حدبندیاں سات ائمہ اور سات نطقاء کی تعداد کے برابر ہے ان میں سے چار تو فریضے ہیں جن کے بغیر نماز روا نہیں تین سنتیں ہیں جن کے بغیر نما ز روا نہیں۔ عقل گل / قبله نفس كل وقت، ناطق / نیت، اساس/ طهارت، امام اذان، حجت / اقامت، داعی / جماعت ۔ نمازی ان سات فرائض کو بجا لاتا ہے تو اُس کی ر نماز مکمل ہو جاتی ہے۔ سات ناطق : آدم ، نوح، ابراہیم ہوئی عیسی محمد ﷺ اور قائم سات اساس ، مولانا شیت، مولانا سام، مولانا اسماعیل، مولانا هارون، مولانا شمعون ، مولانا علی ، اور خلیفہ قائم ، سات امام ہر چھوٹے دور کے سات ائمہ۔ ساتویں عدد پر اسماعیلیوں کا بڑا دار و مدار ہے کیونکہ وہ اعداد میں پہلا عدد کامل ہے سات رنگ، سات آوازیں ، سات دھاتیں، سات آسمان، سات زمین، سات سیارے ، سات یوم، سات سمندر الغرض ہر چیز سات تھی اور اس کبھی نظام کو قائم رکھنے کے لئے اللہ نے سات امام مذکورہ بالا مقرر فرمائے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس کے سات دور مقرر کئے جن کے سات ناطق آئے ۔ اسی وجہ سے اسماعیلی سبیعہ“ کہلاتے ہیں۔ باب ، حجت ، دائی، مازون اور پانچ حدود علوی بینی مقتل، نفس، جد، فتح اور خیال، اذ ان دعوت ظاہر کی دلیل ہے پہلا مرتبہ ماون کا دوسرا دائی کا تیسرا حجت کا چوتھا امام کا پانچواں اساس کا چھٹا ناطق کا ، بسم اللہ ، خُدا کا نام اور خدا کا حقیقی نام تو امام زمان ہے۔ وصی اور رسول دونوں اپنے اپنے وقت میں خدا ہو  ہو یا یقی ہم ہیں کیونکہ انہی کے ذریعہ کی کوخدا کی پہچان ہوسکتی ہے تاویل انسان سویا اور بیدار ہو تاک برابر سانس لیتی رہتی ہے اسی طرح (امام علیہ السلام) متواتر و مسلسل اپنا کام کرتے رہتے ہیں ہمیشہ لوگوں پر فیض برساتے رہتے ہیں۔
(1 ) نماز پڑھنا، داعی کی دعوت میں داخل ہونا یا رسولخدا کا اقرار کرنا کیونکہ صلوۃ اور محمد ہر ایک لفظ میں چار حروف ہیں۔
(۲) قبلہ کی طرف متوجہ ہونا ، امام کی طرف متوجہ ہونا قائم القیامت علیہ افضل التیمیہ والسلام اور قبلہ عقل کل پر دلیل ہے۔
(۳) ظہر کی نماز ، رسول خدا کی دعوت میں داخل ہونا۔
(۴) عصر کی نماز ، حضرت علی یا صاحب القیامہ کی دعوت میں داخل ہوتا ۔
(۵) مغرب کی نماز ، آدم کی دعوت میں داخل ہونا آدم میں تین حروف ہیں اور مغرب کی تین رکعتیں ہیں ۔
(۶) عشاء کی نماز ، چار نقیبوں کی دعوت میں داخل ہونا۔ (۷) فجر کی نماز ، مہدی کی دعوت میں داخل ہونا۔
(۸) تکبیرہ الاحرام، امام، حجت اور سات ناطقوں کا اقرار کرنا۔
(9) رکوع و سجود، حجت اور امام کی معرفت اور اطاعت ۔
( ۱۰) نماز ختن رات کی تاریکی میں پڑھی جاتی ہے نا صبح کونماز پیشین کہتے ہیں۔ روزہ:
(1) ماہ رمضان کے روزے رکھنا ، شریعت کا باطنی علم اہل ظاہر سے چھپانا ۔
(۲) تمہیں روزے، حضرت علی اور امام مہدی کے درمیان دس حجتیں اور دس ابواب ہیں۔
(۳) لیلتہ القدر خاتم الائمہ کی حجت یا حضرت فاطمہ جن کی طرف پیرات منسوب ہے۔
'''پرویزی''' مسلک کے بانی غلام احمد پرویز صاحب ہیں یہ اسلام کے  سکالر تھے۔ غلام احمد پرویز  ۹ جولائی ۱۹۰۳ء کو ضلع گرداسپور کے قصبہ بٹالہ میں پیدا ہوئے ۱۹۲۱ ء میں لیڈی آف انگلینڈ ہائی سکول بٹالہ سے میٹرک کیا بی اے پاس کرنے کے بعد ۱۹۵۴ء میں وزارت داخلہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدہ پر فائز تھے پرویز  نے ۲۴ فروری ۱۹۸۵ ء کولا ہور میں وفات پائی۔
'''پرویزی''' مسلک کے بانی غلام احمد پرویز صاحب ہیں یہ اسلام کے  سکالر تھے۔ غلام احمد پرویز  ۹ جولائی ۱۹۰۳ء کو ضلع گرداسپور کے قصبہ بٹالہ میں پیدا ہوئے ۱۹۲۱ ء میں لیڈی آف انگلینڈ ہائی سکول بٹالہ سے میٹرک کیا بی اے پاس کرنے کے بعد ۱۹۵۴ء میں وزارت داخلہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدہ پر فائز تھے پرویز  نے ۲۴ فروری ۱۹۸۵ ء کولا ہور میں وفات پائی۔
(۴) عیدالفطر ، امام مہدی کا ظہور ۔
(۵) عید الاحی ، صاحب القیامہ کا ظہور۔
حج :
(1) بیت اللہ کا قصد ، امام کی طرف متوجہ ہونا امام ہی (حقیقت مسجد الحرام ہیں) اور داعی اس کی محراب ہے محراب کا رُخ مسجد الحرام کی طرف ہوتا ہے اسی طرح داعی کا چہرہ امام کی طرف ہوتا ہے۔
(۲) کعبہ، حضرت رسول خدا۔
(۳) باب کعبہ، حضرت علی ۔
(۴) حجر اسود، امام الزماں کی وہ حجت جوان کے بعد امام ہو۔
(۵) لبیک کہنا ، امام کی دعوت کا جواب دینا۔
(۶) خانہ کعبہ کا سمات بار طواف کرنا ، سات اماموں کے احکام کی پیروی کرنا جن میں ساتواں قائم ہوتا ہے۔
لا الہ الا اللہ: کلمہ اخلاص (1) لا ( کلمه اول ) ، اساس (۲) اله ( کلمه دوم ) ، ناطق (۳) الا ( کلمه سوئم ) ، لوح (۴) اللہ (کلمہ چہارم ) کلمہ سات ناطق یا سات امام۔
== نظریہ قیامت ==
نظریہ قیامت: اسماعیلی عقیدے کے مطابق قیامت صرف روحانی ہے بہشت و دوزخ دونوں معنوی (باطنی ) ہمیں ہر ایک شخص کی قیامت اس کی موت ہے۔ بہشت
حقیقت میں عقل گل ہی ہے یا عقل کل ہی بحقیقت بہشت ہے اور بہشت کا دروازہ اپنے زمانے میں رسول ملے ہیں اور ان کے وصی اپنی مرتبیت میں اس حیثیت سے ہیں اور امام زمان اپنے عصر میں ہی درجہ رکھتے ہیں اور بہشت کے دروازہ کے کلید کمہ لا الہ الا الله حمد رسول اللہ ہے ۔ پس جو شخص شہادت اخلاص ( بے رہائی ) سے کہتا ہے تو گویا اسے بہشت کا درواز و یعنی رسول مل چکا ہے پس رسول بہشت کے دروازو کی حیثیت سے ہیں اور بہشت کا دروازہ کھولنے والا ان کے دیسی علی علیہ اسلام) ہیں ۔ نیز ہر زمانے میں ) سارے مومنوں کے لئے ( دروازہ جنت کھولنے والا ) امام زمان ہیں۔
حکیم سید ناصر خسرو کہتے ہیں حق تعالی نے انسان کو خوف اور امید کے لئے پیدا کیا ہے چنانچہ خُدا نے اس کو بہشت کے ذریعہ اُمید دلائی اور دوزخ کے ذریعہ ڈرایا ہے انسان کے نفس میں جو خوف پایا جاتا ہے وہ دوزخ کا نشان ہے اور انسان میں جو امید پائی جاتی ہے وہ بہشت کا اثر ہے یہ دونوں چیزیں ( یعنی جزوی خوف اور جزوی اُمید ) جو انسانی فطرت میں پوشیدہ ہیں وہ دوزخ اور بہشت ہیں۔ وجہ دین میں لکھا ہے کہ ہمیشہ دنیا سے آخرت اور آخرت سے دنیا پیدا ہوتی رہتی ہے اور دین کے نظریات کا مدار و محمود یہی ہے۔
== امام مہدی ==
امام مہدی: اسماعیلیوں کے ہاں حضرت علی کی نسل سے قیامت تک آئمہ قائم ہوں گے آخری امام قائمہ القیامہ ہوگا جو دور کشف کا پہلا امام ہوگا۔ اسماعیلیوں کے ہاں ” مہدی“ کا ظہور ہو چکا ہے۔ اور ان کی نسل سے قیامت کے روز جو امام ظاہر ہونگے وہ قائم القیامتہ ہوں گے۔ اسماعیلیوں کے لحاظ سے مہدی کی ولادت ۲۶۰ھ میں عسکر مکرم میں ہوئی پھر اس کا باپ اسے سلمیہ لے گیا جو ائمہ مستور ین کا مستقر تھا ( استنار الامام ص ۵۹) امام عبدالله بن الحسین المستورہی ” مہدی“ ہیں۔ جو گیارہویں امام اور فاطمین کے ظہور کے پہلے خلیفہ ہیں اسماعیلیوں کے مطابق ہر زمانے میں ایک امام کا وجود ضروری ہے زمین کبھی امام سے خالی نہیں رہ سکتی ورنہ وہ منزل ہو جائے ۔
اماموں کا سلسلہ روز قیامت تک حضرت فاطمہ ہی کی نسل میں جاری رہے گا باپ کے بعد بیٹا خواہ وہ عمر مں بڑا ہو یا چھوٹا بالغ ہو یا نا بالغ امام ہوتا رہے گا۔ سنی عقیدہ یہ ہے کہ ایک شخص قریش یا بنی فاطمہ میں سے ہوگا جس کا نام محمد جس کے والد کا نام عبداللہ ہوگا اور جو قیامت سے قبل نمودار ہوگا ۔ قرامطہ محمد بن اسماعیل کو زندہ خیال کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہی امام مہدی کی حیثیت میں دوبارہ نمودار ہونگے کیسانیہ حضرت محمد ابن حنفیہ کے متعلق اس قسم کا اعتقاد رکھتے تھے۔ امامیہ اثنا عشری کے مطابق امام حسن عسکری کے فرزند (امام محمد مہدی ) جو وفات سے قبل دشمنوں کے خوف سے مستور ہو گئے تھے امام مہدی ہیں۔
دولت فاطمیہ کا پہلا امام مہدی محمد بن اسماعیل کی نسل سے ہے اسما عیلیہ عبداللہ کو مہدی جانتے ہیں ۔ مہدی کا نسب نامہ چونکہ عبداللہ امام مہدی کا مسئلہ اسما عیلیہ عقیدہ کی اصل بنیاد سے تعلق رکھتا ہے ان کے خاندان میں ایک شخص عبداللہ نامی تھے جن کو اسماعیلی محمد بن اسماعیل اور ان کے مخالفین میمون قداح کا فرزند بتاتے ہیں اسماعیلی اعتقاد کے لحاظ سے امام عبداللہ بن حسین المستور ہی مہدی ہیں جو دور ظہور کے پہلے امام ہیں ۔ مہدی کی ولادت ۲۶۰ ھ میں عسکر مکرم میں ہوئی ( نوٹ : عسکر مکرم جگہ کا نام ہے ) عبداللہ المہدی حضرت محمد بن اسماعیل کے ایک بیٹے عبداللہ جو اسماعیلی روایت کے مطابق اپنے والد کے جانشین ہوئے ان کے بیٹے احمد بن عبد اللہ اسماعیلی جماعت کے پیشوا ہوئے پھر حسین ابن احمد کے انتقال کے بعد ان کے فرزند عبد اللہ جو بعد میں مہدی کے لقب سے ملقب ہوئے اس وقت بالغ نہ تھے ان کی پروش کی سیادت حضرت حسین کے بھائی محمد الحبیب کے حصہ میں آئی جب  عبد اللہ بالغ ہو گئے تو باپ کی وصیت کے مطابق امامت ان کو منتقل ہوگئی۔
== ائمه مستورین ==
ائمه مستورین: اسماعیل بن جعفر صادق کے بعد جو ائمہ گزرے وہ ہمیشہ بنوعباس خوف سے اپنے آپ کو چھپایا کرتے تھے یہاں تک کے محمد بن اسماعیل کا نام جیسا کہ ابن خلدون نے بیان کیا بنو عباس کے خوف سے اپنے آپ کو اتنا پوشیدہ رکھا کہ ان کا نام ” محمد مکتوم“ پڑ گیا۔ میمون القداح امام محمد بن اسماعیل کا فرضی نام تھا جو صرف عباسیوں کے ڈر سے بچنے کے لئے اختیار کیا تھا میمون القداح کوئی علیحدہ شخص نہ ہے عوام الناس محمد بن اسماعیل کو میمون القداح سمجھتے ہیں لفظ قداح محمد بن اسماعیل کا بیٹا عبد اللہ نے اپنا پیشہ آنکھوں کا معالجہ اختیار کیا اس لئے یہ قداح کے نام سے مشہور ہو گئے ۔ (نوٹ : مختلف فرضی ناموں کا اختیار کرنا اسماعیلیوں کے ہاں کوئی نئی بات نہیں اکثر اوقات ائمہ مستورین نے ایسا کیا ہے ) محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق اور عبد اللہ بن میمون القداح ( یعنی غیب دان کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے ) دونوں کا وجود تاریخ سے ثابت ہے اکثر مورخین نے مہدی کو عبد اللہ بنمیمون القداح کی طرف منسوب کیا ہے۔
== کتامہ ==
کتامہ: "کتامہ قبیلے کا نام ہے جس کے معنی چھپانے کے ہیں یہ لوگ اپنے مذہب کو بہت چھپاتے تھے کتامہ کتماں سے مشتق نہیں ہے صرف ایک قبیلے کا نام ہے جس کے اکثر افراد حلوانی فرقے کے زیر اثر اسماعیلیت اختیار کر چکے تھے۔ اسماعیلیہ کے تین ائمہ مستورین مشہور ہیں حضرت امام محمد ( المکتوم ) کے انتقال کے بعد (۱) عبد اللہ ( الرضی ) (۲) احمد ( الونی ) (۳) حسین (المتقی ) ۔ یہ تینوں ائمہ مستورین کہلاتے ہیں ان کے مستور ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ان تینوں نے بہت پوشیدہ طور پراپنی زندگی بس کی حسین تین ائمہ مستور ین کے آخری بار مستورین کہلاتے ہیں ۔ حسین نے اپنے انتقال کے وقت یہ پیشین گوئی کی تھی کہ میرا لڑکا ( عبد اللہ ) مہدی موعود ہو گا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنادین ظاہر کرے گا۔ اسماعیلیوں کی دوسری جماعت : آغا خانی خوجوں کی نسبت ان کے نظام و عقائد خاص طور پر غیر اسلامی ہیں اس جماعت کا دائرہ بڑا وسیع ہے اور ان میں کئی ایسے طبقے شامل ہیں جن کا اسلام سے بہت دور کا تعلق ہے۔ شاہ شمس سبز واری خوجوں کے دوسرے مبلغ شاہ شمس تھے جو ملتان میں مدفون ہیں انہیں عام طور پر شاہ شمس تبریز کہا جاتا ہے خواجہ روایات کے مطابق وہ ایران کے شہر سبزوار سے تشریف لائے بعض ملتان کے خوجے امام آغا خان کو اپنادیو تا تسلیم کرتے ہیں اور اپنے آپ کو شاہ شمس کے نام پر کسی کہلاتے ہیں۔
== اسماعیلی خوجہ جماعت ==
اسماعیلی خوجہ جماعت کے سب سے بڑے داعی جنہوں نے عام نزاری عقائد کو ہندوستانی ماحول کے مطابق نئے سرے سے ترتیب دیا پیر صدرالدین جو خراسان سے پاکستان آئے اور اب ریاست بہاول پور کے ایک گاؤں ترنڈہ گور گنج میں مدفون ہیں اور وہیں پر ان کا مزار تعمیر ہوا قریب ہی پیر صدرالدین کے بیٹے پیر غیاث الدین مدفون ہیں بہاولپور میں پیر صدرالدین کو چوراسی روضہ والا بھی کہتے ہیں مشہور یہ ہے کہ ان کی اولاد میں سے چوراسی اولیاء ہوئے ۔ پیر صدرالدین کی نسبت آغا خانیوں کے مطابق آغا خان کے ایک مورث اعلیٰ شاہ اسلام نے پیر صدر الدین کو داعی بنا کر ایران سے بھیجا تھا اور بہت لوگ ان کے یا ان کی اولاد کے ہاتھوں اسماعیلی ہوئے ۔ پیر صدالدین نے ایران سے آکر ہندوستان میں  اسماعیلیوں کی تین جماعتیں منظم کیں۔
پنجاب میں بھی ۔ میں مکھی سیٹھ شام داس لاہوری ۲۔ کشمیر میں لکھی سیٹھ جیسی داس سندھ میں مکھی تریکیم تھے سندھ اور مغربی پنجاب میں نجاب میں لوہا نہ قوم کے بہت سے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بعیت کی۔
اسماعیلیوں کا پہلا جماعت خانہ سندھ کے گاؤں ہاڑہ میں پیر صدرالدین کے ہاتھوں قائم ہوا۔ پیر صدالدین اپنا سلسلہ امام حسین سے تیسویں (۲۳) پشت سے ملاتے ہیں۔ پیر صدرالدین اور ان کے بیٹے سید کبیر الدین حسن نے اسماعیلیوں میں نئی روح پھونک دی اور اشاعت مذہب کے لئے یادگار چھوڑی۔
پیر صد الدین نے ایک کتاب دس او تار کے نام سے لکھی یا رائج کی اس کتاب میں رسول اکرم کو برہما کہا حضرت علی کو وشنو اور حضرت آدم علیہ سلام کو شنو سے تعبیر کیا ہے یہ کتاب خوجہ قوم کی مقدس کتاب کبھی جاتی ہے اور مذہبی تقریبوں پر اور نزاع کے وقت مریض کے بستر کے قریب پڑھی جاتی ہے ۔ موجوں کی ایک اور مقدس کتاب گنان ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کو پیر صدرالدین کے بیٹے نے مرتب کی۔ اگرچہ بعض خوبے اس کتاب کو ان کے والد پیر صدرالدین سے منسوب کرتے ہیں ) پیر صدرالدین کے پانچ بیٹے تھے حسن کبیر الدین ، ظہر الدین، غیاث الدین رکن الدین ، تاج الدین، سندھی خوبے پیر صدرالدین کے بڑے بیٹے حسن کبیر الدین کے بڑے معتقد ہیں اور انہیں ان کے والد کی طرح پیر کا خطاب دے رکھا ہے۔ پیر کبیر الدین حسن کا نام حسن دریا بھی مشہور ہے ۔ سندھی فوجوں میں اثنا عشری اور اسماعیلی رسوم پر اختلاف ہے وہاں بعض خوبے تعزیے نکالتے  ہیں آغا خان اول نے اس کی مخالفت کی اس بنا پر وہاں ایک حصہ جماعت سے اگلہ ہو گیا ان کے دو بڑے مرکز شمالی پنجاب اور چترال اور دوسرے کچھ کالی داز اور مغربی ہندوستان میں بھی ہیں ۔ پیر صدرالدین اور ان کا بیٹا پیر حسن کبیر الدین دونوں خوجے فرقے کے بانی تھے۔ پیر صدرالدین وہ واحد آدمی تھے جنہوں نے خوبہ کمیونٹی کو ایک نام دیا خوجگان دراصل، آغا خانی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آغا خان جماعت نے کئی فلاحی ادارے قائم کئے آغا خان میڈیکل کالج ، آغا خان یونیورسٹی اور آغا خان ہسپتال قابلِ ذکر ہیں، شمالی علاقہ جات میں بھی فلاحی ادارے کھولے ہیں۔
اثنا عشری شیعہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں لیکن اسماعیلی جماعتوں نے امامت کو صرف سات اماموں تک محدود نہیں کیا۔ بلکہ اس سلسلہ کو جاری رکھا ہوا ہے کہ ہر زمانہ میں حاضر امام کا ہونا لازمی ہے۔ پیر صدرالدین کی ایک مذہبی کتاب جس کا نام انہوں نے دسا اوتار ( دس اوتار ) رکھا۔ اس مذہبی کتاب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دسواں اوتار مانا ۔ اسماعیلی خوجوں نے اس کتاب کو ابتداء ہی سے بطور آسمانی کتاب کے مانا اور مرنے کے وقت وہ کتاب ہمیشہ برکت کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ اس طرح بہت سے دستورات میں اُس کو پڑھتے ہیں خوجوں نے آغا خان کو اسما عیلی خاندان کا امام اور اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا ہے آغا خان خود اسماعیلی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے ان کو امام تسلیم کیا گیا ہے جب مصر میں سلاطین اسماعیلیہ کی حکومت کو زوال آیا تو آغا خان کے آباؤ اجداد ایران کے مشرقی حصہ میں آباد ہو گئے ۔ بہر صورت ایران میں سکونت اختیار کرنے کے بعد عرصہ دراز تک آغا خان کے اسلاف کے خاندان کی تاریخی حالات کا پتہ کہیں چلتا ۔ حسن علی شما و جب ہندوستان میں آئے رودی جرگے اُن کی سرعنائی کو تسلیم کرتے تھے۔
والا شخص سے مراد امام حق ہے اس واحد شخص سے دنیا ہرگز خالی نہیںکیونکہ اس دارد مشخص (امام) حق کے بغیر مخلوق قائم نہیں رہ سکتی اور صرف واحد شخص ( امام ) حق حقوق کی معہداشت اور حفاظت کر سکتا ہے اگر وہ واحد شخص اس جہان سے چلا جائے تو لان ما تمام مخلوق کی بہتری بھی ختم ہو جائے گی امام حق درخت کے میووں کی دلیل ہے کہ میرے اپنے درخت کی زینت بھی بن سکتے ہیں اور اس کی آئیندو نوع کو بھی باتی ہیجاری رکھ سکتے ہیں امام آل رسول ( یعنی علی ابن ابو طالب اور فاطمہ زہرا کی اولاد) سے ہونا چاہئے اور وہ امام دیتی امور کے لئے زندہ اور حاضر ہونا چاہئے۔ اگر چہ ہر امام اپنے زمانے میں روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں جو شخص مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جاہلانہ صورت میں مرتا ہے اور ایسا شخص دوزخ میں جا گرتا ہے پس جو شخص امام کو پہچانے تو اس پر امام کی اطاعت واجب ہوتی ہے۔ پیس مومن پر فرض ہے کہ اپنے امام زمان کو پہنچانے تا کہ امام کی اطاعت کرنا لازمی ہو۔ اے ایمان والوں خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان قرمان کی اطاعت کرو جو خدا کی طرف سے تمہارے درمیان ہیں۔ موت الصلاح دنیا کم ونجات اخر تحکمہ میں تمہاری دنیاوی بہتری اور آخروی
نجات کے لئے مامور ہوا ہوں۔" آغا خان اول تا چهارم : اسماعیلی فرقے کے امام کا اعزازی لقب جو سب سے پہلے آقائے حسن علی شاہ کو ملا سلسلہ امامت میں اب تک چار آغا خان ہو چکے ہیں۔
== آغا خان اول ==
آغا خان اول : ۱۸۰۰ تا ۱۸۸، پورا نام حسن علی شاہ ہے فتح علی شاہ کا چار کے منظور نظر داماد تھے ان کے والد شاہ جلیل صوبہ کرمان کے گورنر تھے ان کی وفات کے بعد شہنشاہ ایران فتح علی شاہ نے آغا حسن علی شاہ کو کرمان کا گورنر مقرر کیا اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی ۔ اس وقت سے دربار ایران میں ان کے خاندان کا نام آغا خان پڑ گیا جو آگے چل کر خاندانی لقب بن گیا آغا خان کا لقب نہ تو امام یا پیر کی مانند کوئی مذہبی لقب ہے اور نہ ہی اسم معرفہ بلکہ محض ایک عرف ہے جو ان کے خاندان کے لئے مخصوص ہوا ۱۸۳۸ء میں کرمان میں بغاوت ہوگئی اور آغا حسن علی شاہ سندھ چلے آئے۔ آغا خان دوم: آغا خان اول کے بعد اُن کے بیٹے آغا علی شاوان کے جانشین ہوئے وہ اپنی خُدا ترسی اور علمیت کی وجہ سے اپنے وقت کے ایک مشہور شخصیت تھے آغا علی شاہ ۱۸۸۵ء میں فوت ہوئے انہوں نے صرف چار برس اسماعیلی
== آغا خانی فرقے کی امامت کی ==
آغا خان سوم : سلطان محمد شاہ ۲۰ نومبر ۱۸۷۷ء کو کراچی میں پیدا ہوئے جو تاریخ میں سر آغا خان کے لقب سے مشہور ہوئے اسماعیلیہ فرقے کے اڑتالیسویں امام ہوئے ۱۹۴۹ء میں حکومت ایران نے انہیں ایرانی قومیت عطا کی اور " والا حضرت ہمایوں“ کا اعزار بخشا ۱۹۵۱ء میں حکومت شام نے انہیں " شان بنوامیہ " عطا کیا ۱۹۵۳ء میں انڈو نیشیا نے گل سرخ و گل سفید سے نواز ا سر آغا خان فرقہ اسما عیلیہ کے پہلے امام تھے جو اپنے مریدوں میں ہیرے، جواہرات ، سونے، اور پلاٹینم میں تو لے گئے ۔ ۱۹۳۵ ء اور ۱۹۴۵ ء میں ان کی قیمت ایک کروڑ ۶۵ لاکھ روپے کے  قریب تھی ۔ پہلی شادی ۲۸ برس میں چازاد بہن سے ہوئی دوسری شادی تھر یا میلیانو اور تیسری آندرے جوزفین لیونی کاغوں سے ہوئی۔ ان کا اسلامی نام ام حبیبہ تھا اور عام طور پر ما تا سلامت" کے لقب سے مشہور تھیں سر آغا خان ( جولائی ۱۹۵۷ ، کو سوئٹزر لینڈ میں درسوا کے مقام پر فوت ہوئے اسوان ( مصر ) میں دفن ہوئے سلطان محمد شاہ اسما عیلیه آغا خانی فرقے کے ۴۸ ویں امام ہوئے ہیں۔ آغا خان چهارم: شہزاده کریم آغا خان ۱۳ دسمبر ۱۹۳۶ء کو پیدا ہوئے ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء کو دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں حاضر امام چنے گئے امامت پر فائز ہونے کی پہلی رسم ( ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء ) کو جینوا میں ادا ہوئی (۲۶ اکتوبر ) کو نیروبی میں ( ۲۳ جنوری ) کو کراچی میں (۲۱ مارچ ) کو بمبئی میں ان کی گدی نشینی کی رسوم ادا کی گئی۔
نزاری خوجے اور شمسی ہندو ان کو اپنا معبود تصور کرتے ہیں اور مختلف ناموں حاضر امام، خداوند ، شاه پیر، گور پیر ) وغیرہ سے اپنی دُعاؤں میں مخاطب کرتے ہیں پرنس کریم آغا خان چہارم دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں (۴۹) حاضر امام ہیں پرنس کریم آغا خان کے تین بچے ہیں شہزادہ رحیم، شہزادی ذہرہ اور شہزادہ حسن ہیں اب موجودہ آغا خان کے پیروکار امامی اسماعیلی اور عرف عام میں آغا خانی کہلاتے ہیں ہندو پاک میں دس لاکھ سے زیادہ ہیں ۔ گلگت چترال میں اسما عیلیہ فرقے کی کافی آبادی موجود ہے چوغان کے نواح میں اور افغانستان ، ترکستان کوہ پامیر کی وادیوں میں اب بھی موجود ہیں ۔ اسماعیلیہ بوہروں اور خوجوں سے زیادہ منظم اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں <ref>اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص ۴۸</ref>۔
فرقہ اسماعیلیہ اس فرقہ کا اعتقاد ہے کہ امام جعفر صادق کے بیٹے حضرت اسماعیل امام ہیں اور اسماعیلیہ فرقے اسی امام کی نسبت سے اسماعیلی کہلاتے ہیں؟
امام جعفر صادق کے انتقال کے بعد شیعہ کے تین گروہ ہو گئے۔
(1) پہلے فرقے نے امام موسی کاظم کو امام مانا جو امام جعفر کے بیٹے تھے۔
۲) دوسرے فرقے نے جان لیا کہ حضرت اسماعیل ضرور فوت ہو گئے ہیں امام
جعفر کے بیٹے محمد امام ہیں اور امامت اُن کی ہے۔
(۳) تیسرا فرقہ حضرت اسماعیل کی حیات کا کہ وہ زندہ ہے پچھلے دونوں فرقے اسماعیلیہ کہلاتے ہیں اور پہلا فرقہ امامیہ میں شمار ہوتا ہے۔ اسماعیلیہ کہتے ہیں کہ اسماعیل کی اولاد میں قیامت تک امامت بنی رہے گی ۔ اسماعیلیہ بھی امام کی موت کے بعد امام کا دُنیا میں لوٹ آنے کے قائل ہیں ۔ اسماعیلیہ کا لقب محمد بھی ہے اور اس لقب کی وجہ معیت ( مردہ ) میں سرخ لباس پہننا اختیار کیا تھا۔
== اسماعیلی خوجے ==
اسماعیلی خوجے: یہ فرقہ امامی اسماعیلی بھی کہلاتا ہے اور بمبئی و مدراس وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے۔ خاص کر کاٹھیاواڑ کے جزیرہ نما میں زیادہ رہتے ہیں اور انہوں نے اپنی تجارتی نو آبادیاں افریقہ کے مشرقی کنارے پر قائم کی ہیں ۔ بمبئی میں بہت کم تعداد میں سنی خوجوں کی جماعت ہے باقی تمام اسماعیلی خوبے آغا خانی ہیں اور سر ہائی نس آغا خان کو اپنا حاضر امام اور اپنا روحانی پیشوائے مذہب تسلیم کرتے ہیں۔
مگر فروری ۱۹۰۰ ء سے آغا خانی جماعت کے دو حصے ہو گئے ۔
ا ایک وہ جو آغا خانی یعنی امامی اسماعیلی ہیں۔
دوسرے خوجے وہ ہیں جو اثنا عشری مذہب پر ایمان رکھتے ہیں ۔
اثنا عشری خوجوں نے اپنی ایک بڑی مسجد امام باڑہ اور مدرسہ و غیرہ تعمیر کیے ہیں ان میں بھی کافی پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ہندوستان میں اسماعیلی فرقہ کے لیے صدرالدین تقریبا چار سو برس پہلے ہندوستان آئے اور انہوں نے اسماعیلی فرقے کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان میں سب سے پہلے خوجوں کو اسماعیلی بنانے کے لیئے بے صعدہ الدین ہی آئے تھے ۔ اور یہ مضمون سلطان محمد شاہ آغا خان کے بیان سے ماخود
ہے۔ (انسائیکلو پیڈیا آف انڈیا کی دوسری جلد کے صفہ نمبر ۱۳۵ میں لکھا ہے ) خوجوں نے آغا خان کو اسماعیلی خاندان کا امام اور اپنا دھانی چایو تسلیم کیا آنا خان خاندان نزاریہ میں سے ہیں نہ مستعلویہ میں سے یہی وجہ ہے کہ بوہرے جو مستعلو یہ عقیدہ پر ہیں آغا خان کی امامت کے منکر ہیں۔ اسماعیلی ( آغا خانی): فرقے کے بارے چند فروعی و شرعی مسائل جو زبان زدعام میں وہ اس طرح ہیں ( واللہ عالم بالصواب ) کہ اسما عیلیہ فرقہ کا کلمہ طیبہ کچھ یوں ہے - اشهد ان لا اله إلا اللهو أشهد أن محمد الرسول الله والشهدان على ولى اللہ، نماز کی جگہ وہ تین وقت کی دُعا جماعت خانہ میں پڑھتے ہیں۔ اسماعیلی اپنی عبادت کو دُعا کا نام دیتے ہیں ان کی عبادت میں اٹھارہ رکھا تیں شامل ہوتی ہیں۔ اسماعیلی بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح جمعہ کو عبادت کے لئے جماعت خانہ میں اکٹھے ہوتے ہیں بیشتر جماعت خانوں میں ایک بھی ہوتا ہے جو عہدے میں ہوا ہوتا ہے اور چھوٹا کماد یہ جسے اس کا نائب جانا جاتا ہے جماعتی فرائض انجام دیتے ہیں۔ جماعت خانوں میں مرد اور عورتیں علیحدہ علیحدہ قطاروں میں بجھتے ہیں۔ مردوں کی سر براہی کا فریضہ مکھی اور کماد یہ صاحبان انجام دیتے ہیں۔ دعا میں قیام، سجدے کرتے ہیں اور اپنا رخ قبلہ (امام) کی طرف کرتے ہیں ان کے جماعت مادر میں محراب اور ممبر نہیں ان کی ہاں اذان نہیں۔ حج حاضر امام کا دیدار ے اسلام میکنی جگہ یا علی مدد مولاعلی مدد کہتے ہیں۔ اسماعیلی آمدن کا ساڑھے بارہ فیصد حصہ کے ہم اپنی آمدنی زکوۃ میں دیتے ہیں ۔ ۵۰. ۱۲ فیصد جو دس وند کہلاتی ہے اس ہند کو اس میں فرقے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے جسے فرض سمجھ کر جماعت خانے میں دیتے ہیں۔ ان کا بولتا قرآن حاضر امام کی صورت میں موجود ہے روزہ نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ روز واصل میں کان، آنکھ اور زبان کا ہوتا ہے ان کے خیال میں ان کا امام اس زمین پر خدا کا مظہر ہے۔ اسماعیلی عقائد : اسماعیلی خوجوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آغا خان فرقہ اسماعیلیہ کے حاضر امام ہیں اور ان کو حضرت علی سے روشنی ملتی ہے اور سب آئمہ کا سلسلہ حضرت علی تک پہنچاتے ہیں۔
امامی اسماعیلی ایران میں اللہ عطامی کہلاتے ہیں۔
ایشیائے متوسط اور چینی ترکستان میں مولائی کہلاتے ہیں۔
شام اور مصر اور شمالی افریقہ میں اسماعیلیہ کہلاتے ہیں شام میں اُن کو دروں بھی کہتے ہیں افغانستان میں مولائی بھی کہلاتے ہیں۔
۴۔ ہندوستان میں بول چال میں بدخشانی کہلاتے ہیں یہ تمام معتقدین آغا خان کو نذریں دیتے ہیں۔
دسواں: آغا خانی لوگ اپنی نذریں آغا خان کو دیتے ہیں یہ اپنی آمدنی میں سے بارہ فیصد حصہ آغا خان کو دیتے ہیں اور اس نذر کو دو سونگ ( پیداوار کا دسواں حصہ یا
عشر) کے نام سے اپنی آمدنی کا آٹھواں حصہ آغا خان کو ادا کرنے کے پابند ہیں دو سونگ کو ان کے مذہب میں کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ اُن کی مقدس کتاب گنان میں اس کی ہدایت ہے یہ خوجوں کا فرض ہے کہ اپنے امام کو نذریں دیں گستان میں اور بہت سے بیانات ہیں۔ آغا خانی اپنی نذریں اپنے حاضر امام کو اس لیئے دیتے ہیں کہ اس جہان میں سرسبز ہوں آغا خانی لوگ آغا خان کو خدا کا قائم مقام تصور کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن میں حضرت علی کا نور ہے جو امام زندہ اور موجود ہے اس کو حاضر امام کہتے ہیں۔ گنان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ حاضر امام کی پیشکش میں کسی کو حصہ دار نہ بنایا جائے ان کے ہاں دُعا میں تمام اماموں کے نام پڑھے جاتے ہیں اور تمام پیروں کے نام لئے جاتے ہیں۔ خوبے موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو امام مانتے ہیں اور وہ دُنیا کے کئی حصوں میں پیر بھی کہلاتے ہیں ۔ ولادت اور شادی کے مواقع پر بھی نذر دی جاتی ہے نذرو نیاز کا ایک اور بھی طریقہ ہے جو سر بندی کہلاتا ہے۔ یعنی کوئی آدمی اپنی جائیداد حاضر امام کو بیہ کر دے خو جے ان رسومات بندگی کو بہت تختی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اول سفرہ : کی رسم میں چند چیزوں کا نیلام ہے جس کے لئے جماعت خانے کے ممبر بولی دیتے ہیں اور پھر بڑی بڑی قیمتوں سے وہ چیز میں خریدی جاتی ہیں پھر اس رقم سے آغا خان ( حاضر امام ) کے لئے چیزیں خریدی جاتی ہیں۔ کھادا خورا: کی رسم بھی ہے جس کا مقصد کھانے پینے کی اشیاء میں سے آنا خان (حاضر امام) کو چندے کے طور پر ادائیگی کرنا ہے دعوت جس قسم کی بھی ہو ایک حصہ آنا خان ( حاضر امام ) کے لئے مخصوص ہوتا ہے اُس خوراک کو جماعت خانہ میں لا کر نیلام ایک
کر دیا جاتا ہے اور اس سے جو آمدنی وصول ہوتی ہے و انا ان محاضرام لکھا۔
جاتی ہے اسماعیلی جھولی کے نام سے حاضر امام کو نذرانے پیش کرتے ہیں۔ دس اوتار : دس اوتار سے مراد ہے کہ خدا نے دس جسم اختیار کئے تھے اور گواہونے
بھی کہا کہ میں علی اللہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ علی میں خُدا کا نور ہے اور حضرت علی دسویں اوتار ہیں ۔ حاضر امام آغا خان کا نام دُعا میں سترہ دفعہ لیا جاتا ہے اور ہر دفعہ جب اُن کا نام لیتے ہیں تو سجدہ کیا جاتا ہے۔
(1) یہ بارہ اماموں کی زیارت نہیں پڑھتے ۔
(۲) حضرت علی کے لیئے دس اوتار ہوئے ہیں ۔
(۳) کوئی خوجہ حج کرنے اور کاظمین اور سامرہ کو نہیں جاتے۔
(۴) قرآن کو بحیثیت مسلمان ہونے کے مذہبی کتاب جانتے ہیں۔
(۵) اپنے آپ کو دوسرے فرقے کے مسلمان سمجھتے ہیں۔
(1) قرآن پر عمل اور تلاوت بھی کرتے ہیں۔
(۷) نماز سال میں دو دفعہ پڑھ سکتے ہیں۔
لوگ کسی آب شفا: حاضر امام اپنا ہاتھ مبارک پانی میں رکھ کر دعا کرتے ہیں جس سے وہ پانی پاک ہو جاتا ہے۔ جو عقیدت مندوں کو دیا جاتا ہے اور آغا خانی کا
دوسرے شخص کو سوائے آغا خان کے متبرک نہیں سمجھتے۔
جماعت خانہ آغا خانی فرقے کے لوگوں کی عبادت گاہ یا مسجد کو جماعت خانہ کہتے ہیں۔ مسجد بیت الاسلام" کے مکان کی مثال ہے یہ عمارت جماعت خانہ عام طرز کی عمارت ہوتی ہے اور ہر بڑے شہر میں ایک بڑا جماعت خانہ ہوتا ہے ۔ جس  کے ماتحت شہر کے تمام چھوٹے جماعت خانے ہوتے ہیں چھونے جماعت خانہ کو
در خانہ کہا جاتا ہے۔
== پیر ==
پیر: اسماعیلی موجوں میں پیر بھی ہوتے ہیں پیر کا کام یہ ہے کہ امام کی عدم موجودگی میں لوگوں کو امامی اسماعیلی بنائے حاضر امام پیر کو مقرر کرتا ہے۔ آغا خانی خوجوں کی مقدس کتا بیں : اسماعیلی خوجوں کی کتب زیادہ تر فاری زبان میں ہے۔ گنان اور دسا اوتار یہ دو کتا ہمیں مقدس کتا ہیں ہیں۔ دس او تا رگنان مومن چنتاونی و غیرہ پیر صدرالدین اور حسن کبیر الدین اور دیگر اسماعیلی کی طرف منسوب کی جاتی ہیں عموماً گجراتی زبان میں ہیں اس لئے بمبئی کے علاؤہ دوسرے لوگ ان مضامین سے بہت کم واقف ہیں۔ کیونکہ یہ اپنی کتب اور مذہبی عقاید کو خفیہ رکھتے ہیں۔ آج کل اس جماعت کے روحانی پیشوا اور حاضر امام پرنس کریم آغا خان ہیں۔ دُعائے اسلام اسماعیلی فرقے کی بنیادی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے اس کا تعلق ظاہری علم یعنی عملی عبادات سے ہے۔ اسماعیلیوں کو زبانی حفظ کرنے کا حکم بھی ہے زبانی یاد کرنے والے کو خطیر انعامات بھی ملتے ہیں۔ دوسری کتاب تاویل دعائم اسلام ہے اس کے احکامات اور فرائض کی باطنی تاویلات کا بیان ہے یہ کتاب اسماعیلی تاویلات کی اہم ترین بنیاد ہے۔ آغا خانی اور بوہرے: ہندوستان میں اسماعیلی خوجوں ( آغا خانیوں ) اور ہے ان کے عقائد مرزا محمد سعید دہلوی کی کتاب مذہب اور باطنی بوہروں پر مشتمل ۔ تعلیم کے حوالے سے درج کرتے ہیں ۔ حضرت علی وشنو تھے تو حضرت محمد نے دید و یاس کا قالب اختیار کیا جب حضرت علی اپنی معروف عام حیثیت میں نمودار ہوتے تو و و وشنو کا دسواں اوتار (نئی کلنگی ) تھے۔ موجودہ آغاخان تک تمام نزاری ائمہ حضرت علی کا اوتار تصور کیے جاتے ہیں خوجے اور کسی ہندو انہیں اپنا معبود تصور کرتے ہیں۔ یہ یہ لوگ آواگون یا تناسخ کے بھی قائل ہیں اور قیامت جنت دوزخ کے بھی مزار یہ فرقہ کا عموماً یہ مسلک رہا ہے۔ اس فرقے کی روایات کی مستند ترین کتاب کا نام اصول کافی کتاب ہے۔ یہ عربی زبان میں ہے اس کا اردو میں ترجمہ سید ظفر حسن صاحب امروہوں نے الشافی کے نام سے شائع کیا ہے۔
== تصوف ==
تصوف :شیعہ حضرات تصوف کے قائل نہیں ان کے عقیدہ کی رُو سے اس قسم کا غیر مکتب اور براہ راست علم ان کے ائمہ تک محدود ہے ان کے ہاں صوفی ہوتے ہیں نہیں ۔ اہل تصوف کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ باطنی علم اللہ نے حضرت علی کو عطا فرمایا تھا اور آپ سے آگے سینہ بسینہ منتقل ہوتا چلا گیا۔ واضح رہے کہ حضرت علی سے جن حضرات کو یہ علم منتقل ہوا ان سے مراد شیعہ حضرات کے ائمہ نہیں بلکہ سنیوں کے صوفیاء بھی ہیں۔
== اسماعیلی تنظیم ==
اسماعیلی تنظیم : اسماعیلیہ فرقہ کی ابتدا میں صرف تین تنظیمی مدارج تھے۔ امام ، داعی اور مستجیب بعد میں سات ہو گئے۔
(۱) امام (۲) حجت جو امام اور جماعت کے درمیان واسطہ ہوتا ہے تزاری عقیدہ کی روح سے پیر اور حجت ایک ہی منصب کے دو مختلف نام ہیں حجت کو وہ امام کا مظہر اور اس کی روحانی اور الہی صفات کا شریک تصور کرتے ہیں جس طرح موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو ایک علاقہ میں امام کہتے اور دوسرے میں وہ
پیر بھی کہلاتے تھے۔ (۳) ذو مصہ جو حجت سے اپنا علم حاصل کرتا ہے۔
(۳) والی اکبر یا وافی الدعائہ جو امور دعوے کا نگران اور سب داعیوں کا سردار خیال کیا جاتا ہے ۔ (ف) راقی مازون جن کو عوام الناس کی دینی تربیت اور طالبین سے میثاق لے کر جماعت میں داخل کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ دعوت جدید میں دو درجوں کا اضافہ ہو گیا ہے خدائی اور لاسک (لا سرک کا مطلب ہے تو آموز اور میرسیدی ہے لا سک چھٹے درجے کے لوگ ہوتے ہیں ) فدائی ساتویں درجے کے دو لوگ ہیں جو اپنے حاکموں پر اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لیئے ہر وقت تیار رہتے ہیں لا سک وہ لوگ ہیں جو فدائی بنے کے امیدوار ہوتے ۔ اس موجودہ دور میں میں امام وداعی ، سوسن کے علاوہ اور کسی درجے کا ذکر نہیں سنتے۔
نزاری فرقے کا عموما یہ مسلک رہا ہے کہ جس ملک میں وہ سکونت پذیر ہوتے ہیں اس ملک کی شریعت اختیار کر لیتے ہیں ترکستان میں وہ حنفی فقہ کے مقلد ہیں اور ایران میں اثنا عشری فقہ کے پابند ہیں ۔ نزاری اماموں کی فہرست ۳۸ ہے اور سلطان حمد شاہ ( آغا خان سوئم ) نزاری فرقہ کے ۳۸ ویں امام ہیں ۔ ان سب کو نزاری فرقہ اپنا حاضر امام تصور کرتا ہے۔ نزاری عقیدہ یہ ہے کہ ان کے خاندان میں امامت ہمیشہ جاری رہے گی۔
(۱) تاریخ اسلام ( جلد ۴۳) شاہ معین الدین، مکتبہ رحمانی اردو بازارلا ہوں ۔
(۲) مذہب الاسلام مولوی نجم الغنی ، نبیاء القرآن پبلی کیشنز لا ہوں ۔
(۳) ۷۳ فرقے کیسے بنے؟ موسی خان جالانز فی فکشن ہاؤس مزنگ لاہور ۔
(۴) مسلمانوں کی خفیہ باطنی تحریک ، مرز اسید دہلوی ، دوست ایسوسی ایس اردو بازارلا ہو۔
(۵) ذکری فرقہ ، عبد الغنی بلوچ ، آل پاکستان مسلم ذکری انجمن کراچی۔
(1) تصوف کی حقیقت ، پرویز طلوع اسما ام ترست گلبرگ لاہور ۔
(۷) آب کوثر شیخ محمد اکرام ، ادارہ ثقافت اسلامیہ ۲۔ کلب روڈ لاہور ۔
(۸) وجه دین، سید حکیم ناصر خسرو، در الحكمته الاسماعيليهته ونزولات
(۹) مذہب اور باطنی تعلیم را احمد سیدہ ہوں ، اردو مرکز لاہور۔
(۱۰ (11) تاریخ فاطمین مره مرجعه ا ل ، تا ایف ڈاکٹر زاہد علی، نفیس اکیڈین اسٹر مین روڈ کرانچ نمبر ۔
) ڈاکٹر محمد یوسف میمن ، ناثر المكتبته اليوم نيته الچند باغ میر پور خاص، شد
(۱۲) اسلامی انسائیکلو پیڈیا، سیار قاسم محمود الفیصل ، اردو بازار لاہور
(۱۳) وجه دین (۲) سید حکیم تا سر خیر و شر الحكمته الاسماعيليهته جوز رگلات
== عقا‏ئد ==
== عقا‏ئد ==
سلام احمد پرویز کے دادا مولوی چودھری حکیم رحیم بخش حنفی مسلک کے ایک  عالم اور سلسلہ چشتیہ کے  بزرگ  تھے. غلام احمد پرویز  [[قرآن]] کے علاوہ کسی اور علم کو نہیں مانتے نہ حدیث کو صرف ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو قرآن سے مطابق ہو  وہ درست خیال کرتے ہیں باقی سب کی نفی کرتے ہیں۔ پرویزی مسلک کے نزدیک قرآن کی رو سے ایمان کی صداقت کو بلا سوچے سمجھے بغیر آنکھیں بند کر کے مان لینے کا نام نہیں کسی دعوئی کو علم و عقل کی رو سے پر کچھ کر قلب و دماغ کے
سلام احمد پرویز کے دادا مولوی چودھری حکیم رحیم بخش حنفی مسلک کے ایک  عالم اور سلسلہ چشتیہ کے  بزرگ  تھے. غلام احمد پرویز  [[قرآن]] کے علاوہ کسی اور علم کو نہیں مانتے نہ حدیث کو صرف ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو قرآن سے مطابق ہو  وہ درست خیال کرتے ہیں باقی سب کی نفی کرتے ہیں۔ پرویزی مسلک کے نزدیک قرآن کی رو سے ایمان کی صداقت کو بلا سوچے سمجھے بغیر آنکھیں بند کر کے مان لینے کا نام نہیں کسی دعوئی کو علم و عقل کی رو سے پر کچھ کر قلب و دماغ کے
پورے اطمینان کے ساتھ اعلی وجہ البصیرہ صحیح تسلیم کرنے کو ایمان کہتے ہیں ۔
پورے اطمینان کے ساتھ اعلی وجہ البصیرہ صحیح تسلیم کرنے کو ایمان کہتے ہیں <ref>مولوی نجم الغنی خان رامپوری مذہب اسلام ، ، ضیا القرآن پبلیکیشنز لاہور</ref>۔
 
== اسلام دین ہے مذہب نہیں ==
== اسلام دین ہے مذہب نہیں ==
پرویزی مسلک کے نزدیک اسلام دین ہے
پرویزی مسلک کے نزدیک اسلام دین ہے
خط ۱۳: خط ۷۴۱:
حضور کے بعد ان کے نام لیوا اس دین میں تحریف کر دیتے ہیں اور دین کی اس محرف صورت کو مذہب کہا جاتا ہے اور اس کے نام لیواؤں نے رفتہ رفتہ دین کو بلند  
حضور کے بعد ان کے نام لیوا اس دین میں تحریف کر دیتے ہیں اور دین کی اس محرف صورت کو مذہب کہا جاتا ہے اور اس کے نام لیواؤں نے رفتہ رفتہ دین کو بلند  
سطح سے نیچے اُتار کر مذہب بنا دیا ۔ مذہب بن کر اسلام ایک جیتے جاگتے متحرک اور کاروان انسانیت کو اس کی منزل مقصود کی طرف لے جانے والے نظام حیات کی
سطح سے نیچے اُتار کر مذہب بنا دیا ۔ مذہب بن کر اسلام ایک جیتے جاگتے متحرک اور کاروان انسانیت کو اس کی منزل مقصود کی طرف لے جانے والے نظام حیات کی
بجائے چند بے جان عقائد اور بے روح رسومات کا مجموعہ بن کر رہ گیا۔
بجائے چند بے جان عقائد اور بے روح رسومات کا مجموعہ بن کر رہ گیا <ref>مولانا عبد الرحمن گیلانی آئینہ پرویزیت ، مکتبہ دار السلام وسن پورہ سٹریٹ نمبر ۲۰ لا ہور</ref> ۔
  == آخرت کے متعلق نظریہ ==
  == آخرت کے متعلق نظریہ ==
آخرت کے متعلق بھی غور وفکر سے کام لینے کی غلام احمد پرویز  نے تاکید کی ہے۔ لہذا قرآن کی رو سے آخرت پر ایمان بھی اندھی عقیدت کی بنا پر نہیں لایا جاتا اس صداقت کو غور وفکر کے بعد تسلیم کیا جاتا ہے۔ پرویزی مسلک کہتا ہے قرآن کی تفسیر قرآن کے اندر سے کر و حدیث منطق ، اصول اور تصوف کو بھی نہیں مانتے۔  
آخرت کے متعلق بھی غور وفکر سے کام لینے کی غلام احمد پرویز  نے تاکید کی ہے۔ لہذا قرآن کی رو سے آخرت پر ایمان بھی اندھی عقیدت کی بنا پر نہیں لایا جاتا اس صداقت کو غور وفکر کے بعد تسلیم کیا جاتا ہے۔ پرویزی مسلک کہتا ہے قرآن کی تفسیر قرآن کے اندر سے کر و حدیث منطق ، اصول اور تصوف کو بھی نہیں مانتے۔
 
== مشہور کتابیں ==
== مشہور کتابیں ==
* مقام حدیث  
* مقام حدیث  
خط ۲۱: خط ۷۵۰:
* آدم وابلیس  
* آدم وابلیس  
* اسلام کیا ہے؟ پرویزی مسلک کا رسالہ طلوع اسلام جو ہر ماہ شائع ہوتا ہے جس سے پرویزی مسلک کی تبلیغ کی جاتی ہے۔
* اسلام کیا ہے؟ پرویزی مسلک کا رسالہ طلوع اسلام جو ہر ماہ شائع ہوتا ہے جس سے پرویزی مسلک کی تبلیغ کی جاتی ہے۔
 
== عبادت گاہ ==
عبادت گاہ : پرویزی مسلک نے اپنی الگ عبادت گاہیں نہیں بنا ئیں۔ پرویزی مسلک کے لوگ چھوٹے چھوٹے گھر لے کر وہاں پر غلام احمد پرویز صاحب کی کتا ہیں اور ویڈ یوفلم دکھاتے ہیں اور پرویزی مسلک کا اپنے لوگوں میں یہی تبلیغ کا راستہ ہے۔ عموماً چھٹی والے دن صبح کو سارے پرویزی مسلک کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ دس سے بارہ بجے تک وجہ یہ ہے کہ کسی نماز کا وقت آئے نہ ہی کوئی اعتراض پیدا ہو۔ پاکستان میں مختلف شہروں میں مقرر کردہ مقامات پر درس قرآن
پرویزی مسلک نے اپنی الگ عبادت گاہیں نہیں بنا ئیں۔ پرویزی مسلک کے لوگ چھوٹے چھوٹے گھر لے کر وہاں پر غلام احمد پرویز صاحب کی کتا ہیں اور ویڈ یوفلم دکھاتے ہیں اور پرویزی مسلک کا اپنے لوگوں میں یہی تبلیغ کا راستہ ہے۔ عموماً چھٹی والے دن صبح کو سارے پرویزی مسلک کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ دس سے بارہ بجے تک وجہ یہ ہے کہ کسی نماز کا وقت آئے نہ ہی کوئی اعتراض پیدا ہو۔ پاکستان میں مختلف شہروں میں مقرر کردہ مقامات پر درس قرآن کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔
 
=== نماز ===
کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔
پرویزی مسلک پانچ وقت نماز کی جگہ دواوقات نماز کے قائل ہیں۔ قرآن میں نماز قائم کرنے کا تصور صبح شام کا ہے پرویزی مسلک صلوہ کو نماز کہنے سے گریز  کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لفظ مجوسیوں کا ہے صوم یا روزہ کے مطلق پرویزی مسلک کا لٹریچر بہت کم ہے ۔ حج کے موقع پر قربانی صرف حاجیوں کے لئے ضروری سمجھتا ہے مقامی حضرات کے لئے ضروری نہیں سمجھتے۔
 
== قرآن کے متعلق عقیدہ ==
نماز : پرویزی مسلک پانچ وقت نماز کی جگہ دواوقات نماز کے قائل ہیں۔ قرآن
پرویزی مسلک میں زیادہ تر لوگ صرف قرآن کو مانتے ہیں اس لئے وہ قرآن اور انجیل کا ہر وہ واقعہ جوانجیل اور قرآن میں ملتا ہے بظاہر وہ مختلف ہوگا مثلا مریم ( والدہ عیسی ) نے قرآن کے مطابق سرائے رم  میں بچہ (عیسی) کو جنم دیا۔ لیکن انجیل بتاتی ہے بیت لحم میں اس طرح پرویزی مسلک مناظر انا طور پر دیکھتے ہیں اور فوقیت قرآن کو دیتے ہیں اور اس بات کو کچی جانے ہیں اور انجیل کی دلالت کو تحریف قرار دیتے ہیں ۔ پرویز لکھتے ہیں سردست صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اناجیل کو نہ حضرت عیسیٰ نے خود لکھا اور نہ لکھوایا بلکہ آپ کے بعد آپ کے شاگردوں نے از خود ( روایت ) مرتب کیا یعنی یہ کتابیں حضرت عیسیٰ کی زندگی کی تاریخ ہیں۔ لیکن قرآن میں ہے کہ حضرت عیسی نے کہا کہ میں کتاب لے کر آیا ہوں۔
== جمعہ کی نماز ==
جمعہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ جمعتہ المبارک کا روز ہے محلہ مسلمان اپنے طور پر اس فکر میں لگے ہوئے ہیں کہ مساجد کی صفیں اور دریاں درست کی جائیں جمعہ کا روز ترجیحات اول میں شامل ہے ادھر اذان ہوئی اُدھر نمازی حضرات بھی جوق در جوق مساجد میں آنے لگے جمعہ کی نماز اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے اور ثواب حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے اور ثواب کیا ہے؟
یہ انسانی اعمال کا وہ نتیجہ ہے جو مخصوص شکل میں اس دنیا میں ملتا ہے اور آخرت میں بھی ملے گا البتہ ہمارے ہاں ایصال ثواب کا جو عقیدہ رائج ہے قرآن سے اس کی سند نہیں ملتی ایسا معلوم ہوتا ہے اس عقیدہ کو اسلام میں زبر دستی داخل کر لیا گیا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ اس خود ساختہ مذہب میں لوگوں کی کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے جانوروں کا ریوڑ جس میں ماسوائے چرواہے کی بے معنی آوازوں کے اور کچھ سننے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ اندھے اور گونگوں کا یہ ہجوم جو عقل و فکر سے کام نہیں لیتا ایک لحہ کے لئے بھی سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ اس عظیم اجتماع میں کیوں آئے تھے اور کیا لے کر جا رہے ہیں اس کی حکمت کیا ہے۔ اس کے مقاصد اور غرض وغایت کیا ہے؟ سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ اس سلسلہ میں قرآن ہماری کیا راہنمائی کرتا ہے اسلام کیا ہے، <ref>پرویز طلوع اسلام ٹرسٹ گلبرگ ۲لاہور</ref>۔
== طلوع اسلام ==
۱۹۳۸ء میں علامہ اقبال موصوف نے وفات پائی تو ان کی یادگار کے طور پر سید نذیر نیازی  نے ایک ماہنامہ بنام طلوع اسلام جاری کیا تھوڑی مدت کے بعد پرویز صاحب نے ماہنامہ کی سر پرستی سنبھالی ۱۹۴۷ء میں دہلی سے کراچی منتقل ہوئے ماہنامہ کا جلد نمبر بھی ۱۹۴۷ء سے ہی شروع کیا گیا ۱۹۵۵ء میں گلبرگ کوٹھی نمبر 25/8 میں منتقل ہو گئے یہیں غلام احمد پرویز  نے ۸۲ سال کی عمر میں وفات پائی طلوع اسلام نے لغات القرآن، مطالب الفرقان، معارف القرآن، مفہوم القرآن اور تبویب القرآن کی کئی کئی جلد میں ہیں۔ پرویز  صحاح ستہ کے جامعین کا مختصر خاکہ اس طرح پیش کرتے ہیں:
یہ سب کے سب ایرانی تھے ان میں عرب کا رہنے والا کوئی نہیں تھا۔ احادیث کی جمع و تدوین کا کام غیر عربوں کے ہاتھوں سرانجام ہوا۔
یہ تمام حضرات تیسری صدی ہجری میں ہوئے۔
یہ تمام احادیث لوگوں نے انہیں زبانی سنائی ان کا کوئی تحریری ریکارڈ اس سے پہلے موجود نہیں تھا <ref>طلوع اسلام، (رسالہ ماہ جولائی ۲۰۰۳ء) ، عطاء الرحمن ارائیں</ref>۔
{{خانہ معلومات مذاہب اور فرقے
{{خانہ معلومات مذاہب اور فرقے
| عنوان = اہل حدیث
| عنوان = اہل حدیث
خط ۴۰: خط ۷۷۷:


'''اہل حدیث'''  اسلامی علوم، حدیث وفقہ اور تاریخ وتراجم وغیرہ موضوعات پر لکھی گئی کتابوں میں اصحابِ حدیث، اہل حدیث، علمائے حدیث، جیسے الفاظ طلبہٴ حدیث اور حدیث کی روایت اور درس وتصنیف کے ذریعہ اس کی خدمت میں مشغول رہنے والوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں، نیز قدیم مصنَّفات میں امام مالک، امام شافعی کے مذہب ومسلک کی پیروی کرنے والے علما کا تعارف بھی اہلِ حدیث کے لقب سے کیاگیا ہے۔ اسی طرح اہل السنہ والجماعہ کا ذکر بھی اہلُ الحدیث کے عنوان سے کتابوں میں ملتا ہے۔
'''اہل حدیث'''  اسلامی علوم، حدیث وفقہ اور تاریخ وتراجم وغیرہ موضوعات پر لکھی گئی کتابوں میں اصحابِ حدیث، اہل حدیث، علمائے حدیث، جیسے الفاظ طلبہٴ حدیث اور حدیث کی روایت اور درس وتصنیف کے ذریعہ اس کی خدمت میں مشغول رہنے والوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں، نیز قدیم مصنَّفات میں امام مالک، امام شافعی کے مذہب ومسلک کی پیروی کرنے والے علما کا تعارف بھی اہلِ حدیث کے لقب سے کیاگیا ہے۔ اسی طرح اہل السنہ والجماعہ کا ذکر بھی اہلُ الحدیث کے عنوان سے کتابوں میں ملتا ہے۔
== اہل حدیث ==
== اہل حدیث ==
لفظ اہل حدیث دولفظوں سے مرکب ہے پہلا لفظ "اہل“ ہے دوسرا لفظ " الحدیث ہے اس کا ترجمہ حدیث والا بنتا ہے اہل حدیث اللہ کے پاک کلام قرآن مجید فرقان حمید کا نام ہے پھر حدیث حضور کے اقوال وافعال کا نام ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اہل الحدیث کے معنی قرآن وحدیث والے کے ہیں پس مسلک اہل الحدیث کی بنیاد اولین قرآن مجید ہے اور اس کے بعد احادیث رسول۔ قرآن مجید اور حدیث نبوی صرف یہی دو چیزیں مسلک اہل حدیث کی بنیاد ہیں اور یہ دونوں چیزیں جدید نہیں بلکہ اسلام کی ابتدائی بنیاد ان ہی پر رکھی گئی ہے۔ اہل حدیث اپنے آپ کو عملاً اہل سنت کہلاتے ہیں اور مذہب اہل الحدیث ۔ ان کے اصول سنت یہ ہے کہ صحابہ کرام کے طریقے کو لازم پکڑیں اور ان کی اقتداء کریں اور بدعت ترک کردیں کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے <ref>یاسر جواد،  ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا،  ، ٹاک ہوم مزنگ روڈ لاہور </ref>۔
لفظ اہل حدیث دولفظوں سے مرکب ہے پہلا لفظ "اہل“ ہے دوسرا لفظ " الحدیث ہے اس کا ترجمہ حدیث والا بنتا ہے اہل حدیث اللہ کے پاک کلام قرآن مجید فرقان حمید کا نام ہے پھر حدیث حضور کے اقوال وافعال کا نام ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اہل الحدیث کے معنی قرآن وحدیث والے کے ہیں پس مسلک اہل الحدیث کی بنیاد اولین قرآن مجید ہے اور اس کے بعد احادیث رسول۔ قرآن مجید اور حدیث نبوی صرف یہی دو چیزیں مسلک اہل حدیث کی بنیاد ہیں اور یہ دونوں چیزیں جدید نہیں بلکہ اسلام کی ابتدائی بنیاد ان ہی پر رکھی گئی ہے۔ اہل حدیث اپنے آپ کو عملاً اہل سنت کہلاتے ہیں اور مذہب اہل الحدیث ۔ ان کے اصول سنت یہ ہے کہ صحابہ کرام کے طریقے کو لازم پکڑیں اور ان کی اقتداء کریں اور بدعت ترک کردیں کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے <ref>یاسر جواد،  ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا،  ، ٹاک ہوم مزنگ روڈ لاہور </ref>۔
confirmed
۱٬۱۳۰

ویرایش