کاربر:Saeedi/صفحه تمرین: تفاوت میان نسخه‌ها

۹۴٬۶۴۵ بایت اضافه‌شده ،  ‏۲۷ دسامبر ۲۰۲۳
بدون خلاصۀ ویرایش
بدون خلاصۀ ویرایش
بدون خلاصۀ ویرایش
 
(۱۰ نسخهٔ میانیِ ایجادشده توسط همین کاربر نشان داده نشد)
خط ۱: خط ۱:
'''سید رضا موسوی''' جو سید رضی سے معروف تھے۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھ جنرل سید رضی موسوی شام میں مقاومتی تنظیموں کے لاجسٹک سپورٹ کے انجارج تھے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے دمشق میں اسرائیلی حملے میں اپنے اعلی کمانڈر کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو تاوان ادا کرنا ہوگا۔
== شہادت ==
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شام کے دارالحکومت دمشق میں سپاہ پاسداران انقلاب کے ممتاز فوجی مشیر سید رضی موسوی اسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔
اس سے پہلے شام کے دارالحکومت دمشق کے علاقے زینبیہ میں صہیونی حکومت کے فضائی حملے کی خبریں موصول ہوئی تھیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھ جنرل سید رضی موسوی شام میں مقاومتی تنظیموں کے لاجسٹک سپورٹ کے انجارج تھے۔
سپاہ پاسداران انقلاب نے صہیونی حکومت کے اس وحشیانہ حملے کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کو اس حملے کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔
شہید رضی موسوی سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے سابق کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
== ایرانی صدر رئیسی کا بیان ==
ایرانی صدر رئیسی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ شہید رضی موسوی ایک بہادر کمانڈر اور شہید قاسم سلیمانی کے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔
شام کے دارالحکومت دمشق کے علاقے زینبیہ میں اسرائیل کے فضائی حملے میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی کمانڈر اور فوجی مشیر سید رضٰ موسوی شہید ہوگئے ہیں۔
صدر آیت اللہ رئیسی نے واقعے کے بعد اپنے تعزیتی پیغام میں ایرانی قوم اور سپاہ پاسداران کے ساتھ تعزیت کی ہے۔
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ شہید رضی موسوی ایک بہادر کمانڈر اور شہید قاسم سلیمانی کے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔ غاصب صہیونی حکومت نے شام میں مقاومت کو فوجی مشاورت اور حضرت زینب کے روضے کی حفاظت کے دوران ان کو شہید کردیا۔
صدر رئیسی نے کہا کہ جنرل موسوی کی شہادت ثابت کرتی ہے کہ صہیونی حکومت نہایت کمزور اور حواس باختہ ہوچکی ہے۔ اسرائیل کو شہید موسوی پر حملے کی قیمت ادا کرنا پڑے گا۔
== شہادت کی تفصیلات ==
دمشق میں تعیینات ایرانی سفیر حسین اکبری نے مہر نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید جنرل موسوی شہید قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل موسوی آج دوپہر دو بجے ایرانی سفارت خانہ آئے تھے جہاں وہ اپنے دفتری فرائض انجام دینے کے بعد زینبیہ کے علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ کی جانب چلے گئے تھے۔ حسین اکبری نے مزید کہا کہ شہید موسوی کی شریک حیات سکول میں پڑھاتی ہے اس لئے حملے کے وقت گھر پر موجود نہیں تھی۔ تقریبا سہ پہر 4 بج کر 20 منٹ پر صہیونی حکومت نے ان کی رہائش گاہ پر تین میزائل فائر کئے۔ میزائل لگنے کے بعد رہائش گاہ کی عمارت مکمل تباہ ہوگئی اور شہید موسوی کی لاش صحن میں پڑی ہوئی تھی۔
ایرانی سفیر نے شہید موسوی کے بارے میں کہا کہ وہ ایرانی سفارتخانے میں سفارتکار اور سیکنڈ کونسلر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ان کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا اس وجہ سے ان پر حملہ 1961 اور 1973 کی بین الاقوامی کنونشن کی روشنی میں جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
اکبری نے مزید کہا کہ صہیونی حکومت نے شہید موسوی پر حملہ کرکے جنایت کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ حملہ شام کی خودمختاری کی بھی مکمل خلاف ورزی ہے کیونکہ سفارتکاروں کو تحفظ فراہم کرنا میزبان ملک کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید جنرل موسوی شام میں فوجی مشیر کی ذمہ داری بھی انجام دیتے تھے۔ وہ شام میں سپاہ پاسداران انقلاب کے قدیمی مشیروں اور شہید جنرل سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
== ایرانی و‌زیر خارجہ ==
ایرانی وزیرخارجہ نے شہید جنرل موسوی پر حملے کے ردعمل میں تل ابیب کو سخت جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق صہیونی حکومت کی جانب سے شام کے دارالحکومت دمشق میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی کمانڈر میجر جنرل سید رضی موسوی پر حملے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر انہوں نے لکھا ہے کہ جنرل موسوی کی شہادت پر ایرانی اور شامی قوم اور شہید کے لواحقین کو تعزیت پیش کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ شہید موسوی نے کئی سال شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے قاتل صہیونی حکومت کو پیغام دیتے ہوئے لکھا ہے کہ تل ابیب ایران کے سخت ردعمل اور جواب کا منتظر رہے۔
یاد رہے کہ شہید میجر جنرل سید رضی موسوی شہید حاج قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور شام میں کئی سال مقاومت کے لئے اہم خدمات انجام دیں۔
== ایرانی جوانوں کااحتجاج ==
جنرل موسوی پر حملہ، ایرانی جوانوں کا قومی سلامتی کونسل کے دفتر کے باہر صہیونی حکومت کے خلاف احتجاج
مظاہرین نے جنرل موسوی پر ہونے والے حملے کو بزدلانہ اور شرمناک قرار دیتے ہوئے ایرانی حکومت سے اپیل کی کہ اس حملے کا دندان شکن جواب دیا جائے۔
مہر نیوز کے نامہ نگار کے مطابق، شام میں صہیونی حکومت کے دہشت گردانہ حملے میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی کمانڈر میجر جنرل سید رضی موسوی کی مظلومانہ شہادت کے بعد ایرانی دارالحکومت تہران میں طلباء اور شہریوں کی بڑی تعداد میں احتجاج کیا۔
تفصیلات کے مطابق سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی قومی سلامتی کونسل کے دفتر کے باہر جمع ہوکر غاصب صہیونی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
مظاہرین نے جنرل موسوی پر ہونے والے حملے کو بزدلانہ اور شرمناک قرار دیتے ہوئے ایرانی حکومت سے اپیل کی کہ اس حملے کا دندان شکن جواب دیا جائے۔
مظاہرے میں شریک بعض کفن پوش جوانوں نے ہاتھوں میں حزب اللہ کے پرچم تھامے ہوئے تھے۔
== قومی سلامتی کمیشن کے غیر معمولی اجلاس ==
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان نے جنرل رضی موسوی کی شہادت کے بعد کمیشن کے غیر معمولی اجلاس کا اعلان کیا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ابوالفضل عموئی نے کہا کہ جنرل سید رضی موسوی کی شہادت کے بعد ملک کے قومی سلامتی کمیشن کے غیر معمولی اجلاس کے بارے میں میڈیا کو آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتے قومی سلامتی کمیشن کے اجلاس میں ہم شہید سید رضی موسوی کے خلاف صیہونی حکومت کے دہشت گردانہ حملے پر بات کریں گے اور ملک کی وزارت خارجہ، ملٹری اور انٹیلی جنس کے حکام  اس دہشت گردانہ واقعے کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیں گے۔
ایرانی پارلیمنٹ کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان نے مزید کہا کہ  صیہونی حکومت کے اس وحشیانہ عمل کا یقینی طور پر سخت جواب دیا گا اور جیسا کہ فوج اور ملکی حکام نے کہا اسرائیل کو اس وحشیانہ اقدام کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
صیہونی رجیم نے دمشق کے علاقے زینبیہ میں جنرل موسوی کی رہائش گاہ کو ٹارگٹ کرتے ہوئے مقبوضہ گولان سے 3 میزائل داغے جس کے نتیجے میں سپاہ پاسداران انقلاب کا یہ کمانڈر شہید ہوگیا۔
جائے وقوعہ پر موجود افراد کے مطابق اس دہشت گردانہ حملے کے وقت دیگر افراد بھی وہاں موجود تھے تاہم اس دہشت گردانہ حملے میں شہید اور زخمی ہونے والوں کی صحیح تعداد ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔
== میجر جنرل عبدالرحیم موسوی ==
ایرانی مسلح افواج کے چیف کمانڈر نے اسرائیل کی جانب سے شام میں ایران کے ایک سینئر فوجی مشیر کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے مزاحمت کے خلاف جعلی رجیم کی مایوسی قرار دیا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے اپنے پیغام میں دمشق کے ایک محلے میں اسرائیلی فضائی حملے میں سینئر ایرانی کمانڈر سید رضی موسوی کی شہادت پر ان کے اہل خانہ، مزاحمتی فورسز اور سپاہ پاسداران انقلاب سے تعزیت کا اظہار کیا۔
انہوں نے لکھا کہ "غزہ کے عوام اور مزاحمتی محاذ کے ہاتھوں غاصب رجیم کی پے در پے شکستوں کے بعد اس رجیم کی بے چارگی اور مایوسی ایک مخلص مجاہد کی شہادت سے ایک بار پھر عیاں ہو گئی ہے۔"
== ایرانی آرمی چیف ==
ایرانی آرمی چیف نے شہید ہونے والے جنرل موسوی کو شام میں سپاہ کے سینئر فوجی مشیر اور انسداد دہشت گردی کے اعلیٰ کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کے ساتھی کے طور پر بھی بیان کیا۔
جنرل سلیمانی کو 3 جنوری 2020 کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک امریکی ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ وہ خطے خاص طور پر عراق اور شام میں امریکہ اور اسرائیل کے بنائے ہوئے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف جنگ میں  کلیدی کردار کی وجہ سے انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
بریگیڈئیر شہید رضی موسوی شام میں ایران کے فوجی مشاورتی مشن میں خدمات انجام دیتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔
یہ مشن 2014 میں شام کی مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچا جب عرب ملک نے خود کو  دہشت گرد تنظیم داعش کی گرفت میں پایا۔
جنرل سلیمانی کی قیادت میں اس مشن نے شام میں دہشت گردی کے خاتمے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہوئے بالآخر 2017 کے میں داعش کا صفایا کیا۔
ایران کی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کو شام میں ایرانی مشیر جنرل سید رضی موسوی کے قتل کی قیمت چکانی پڑے گی۔
== مجلس وحدت مسلمین پاکستان ==
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی نے دمشق میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے مشیر میجر جنرل سید رضی موسوی پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کا فضائی حملہ شام کی داخلی خود مختاری پر حملہ ہے، جس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے جنرل سید رضی موسوی کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان شہداء کے خون نے اسرائیل کی نابودی کے عمل کو سرعت بخشی ہے۔ بلاشبہ ان جرائم کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے اپنے ایک پیغام میں جنرل سید رضی موسوی کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا۔
غاصب صیہونی حکومت کے بزدلانہ حملے میں سپاہ اسلام کے قابل فخر کمانڈر، شہید قدس جنرل قاسم سلیمانی کے دیرینہ دوست اور ساتھی شہید سید رضی موسوی کی شہادت نے صیہونی رجیم کی ایک بار پھر شام کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو برملا کر کے تباہی کے دہانے پر کھڑی اس دہشت گرد رجیم کے چہرے سے نقاب نوچ لیا ہے۔
بریگیڈیئر جنرل موسوی شام کی قانونی حکومت کی سرکاری دعوت پر فوجی مشیر کے طور پر اس ملک میں موجود تھے اور دہشت گردی سے نمٹنے کا طویل تجربہ رکھتے تھے۔
صیہونی حکومت تمام تر دعوؤں کے باوجود طوفان الاقصی آپریشن کے بعد تقریباً تین ماہ کے دوران غزہ کے رہائشی مراکز اور ہسپتالوں پر وحشیانہ حملے کے علاوہ کوئی ٹھوس فوجی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اب وہ کوشش کر رہی ہے کہ اس خود ساختہ دلدل سے نکلنے اور عالمی رائے عامہ کی توجہ اپنے جرائم سے ہٹانے کے لئے تنازعات کا دائرہ خطے تک پھیلائے تاکہ اپنے اتحادیوں کو اس معرکے میں پھنسا کر اپنی نابودی کا علاج کر سکے۔
شہید جنرل سید رضی موسوی کا قتل بھی اسی فریب کارانہ فریم ورک میں کیا گیا ہے لیکن جرائم پیشہ صیہونی حکام حسب سابق اسٹریٹجک غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ ابھی تک حالیہ واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران سے نہیں نکل پائے ہیں تو اس شہید کے قتل کی اسٹریٹجک غلطی کے مضمرات سے کبھی چھٹکارہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔
حالیہ جنگی صورت حال نے اس قاتل رجیم کو اس مرحلے پر پہنچا دیا ہے کہ اس کا کوئی بھی دہشت گردانہ اور جنونی اقدام نہ صرف اس کی بنیادوں کو ہلا دے گا بلکہ اس کے خلاف محور مقاومت کا گھیراو پہلے سے زیادہ تنگ ہو جائے گا۔
اسلام کے اس قابل فخر سپوت کی شہادت پر امام زمان ع، رہبر معظم انقلاب اور شہید کے خاندان کی خدمت میں تعزیت عرض ہے اور
مجھے یقین ہے کہ ان شہداء کا خون غاصب اسرائیل کے زوال کا باعث بنے گا اور بلاشبہ اس رجیم کے وحشیانہ جرائم کا بھر پور جواب دیا جائے گا۔
شام میں شہید جنرل موسوی پر حملے کے بعد ایرانی وزیردفاع نے ردعمل میں کہا ہے کہ اسرائیل کو مناسب وقت پر سخت جواب دیا جائے گا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیردفاع بریگیڈئیر جنرل محمد رضا آشتیانی نے شام کے دارالحکومت دمشق میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی کمانڈر بریگیڈئیر جنرل سید رضی موسوی پر اسرائیلی قاتلانہ حملے کے بعد تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ ایران غاصب صہیونی حکومت کو مناسب وقت پر دندان شکن جواب دے گا۔
انہوں نے تاکید کی کہ صہیونی حکومت نے بزدلانہ حملہ کیا ہے جس کا مناسب اور صحیح موقع پر جواب دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی کمانڈر بریگیڈئیر جنرل سید رضی موسوی کو دمشق کے علاقے زینبیہ میں صہیونی حکومت نے میزائل حملہ کرکے شہید کیا تھا۔
شہید جنرل موسوی نے کئی سال تک شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ شام اور عراق میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تھی۔
غاصب صہیونی حکومت کا فضائی حملہ شام کی داخلی خود مختاری پر حملہ ہے، ایم ڈبلیو ایم پاکستان
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی نے دمشق میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے مشیر میجر جنرل سید رضی موسوی پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کا فضائی حملہ شام کی داخلی خود مختاری پر حملہ ہے، جس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے، شہید جنرل موسوی شہید قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، انہیں گھر پر میزائل حملے میں شہید کیا گیا ہے، وہ ایرانی سفارتخانے میں بحیثیت سفارتکار اور سیکنڈ کونسلر کام کرتے تھے، ان کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا، ان پر حملہ 1961ء اور 1973ء کے بین الاقوامی کنونشن کی سنگین خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
انہوں نے کہا عالمی مجرم اسرائیل عالمی قوانین کی کھلم کھلا دھچیاں اڑا رہا ہے، غاصب اسرائیلی رجیم کی ان مجرمانہ کارروائیوں سے صاف ظاہر ہے کہ صہیونی ریاست شدید بوکھلاہٹ اور خوف کا شکار ہو کر اس طرح کے جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے، صہیونی حکومت نے شہید موسوی پر حملہ کر کے جنایت کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ حملہ شام کی خودمختاری کی بھی مکمل خلاف ورزی ہے کیونکہ سفارتکاروں کو تحفظ فراہم کرنا میزبان ملک کی ذمہ داری ہے، شہید جنرل موسوی شام میں فوجی مشیر کی ذمہ داری بھی انجام دیتے تھے۔ وہ شام میں سپاہ پاسداران انقلاب کے پرانے مشیروں اور شہید جنرل سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے <ref>صہیونی حکومت کو شہید جنرل موسوی پر حملے کی قیمت ادا کرنا پڑے گا، صدر رئیسی [https://ur.mehrnews.com/news/1920842/%D8%B5%DB%81%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%A9%D9%88-%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D8%AC%D9%86%D8%B1%D9%84-%D9%85%D9%88%D8%B3%D9%88%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D9%8 mehrnews.com]</ref>۔
'''کلب صادق''' کلب صادق ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر،مفکر،مصلح، ماہر تعلیم اور مبلغ تھے۔وہ لکھنؤ، کے ایک انتہائی معزز شیعہ خاندان المعروف خاندان اجتہاد ۔آپ کے والد کلب حسین اپنے وقت کے مشہور عالم دین تھے۔مولانا کے بھائی مولانا کلب عابد بھی اسلامی اسکالر اور مبلغ تھے۔ان کے بیٹے مولانا کلب جوادہیں جو مولانا کلب صادق کے بھتیجے ہیں۔ آپ کو ہندو اور مسلمانوں، شیعوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ایک بڑے داعی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
== سوانح عمری ==
کلب صادق 22 جون 1939ء میں لکھنؤ کے معروف اور علمی خانوادے، خاندان اجتہاد میں پیدا ہوئے۔ اس خاندان کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ اس نسل میں کئی ایک نوابغ اور علمی شخصیات پیدا ہوئیں۔ یہ خاندان سبزوار سے ہندوستان کے علاقے جائس میں آکر آباد ہوا۔ اسی خاندان کے بزرگ سید نصیرالدین کے سبب علاقے کا نام نصیر آباد پڑ گیا <ref>سید اسد عباس، ڈاکٹر کلب صادق خاندانی پس منظر اور سماجی خدمات، i[https://www.islamtimes.org/ur/article/901380 slamtimes.org]</ref>۔
== تعلیم ==
آپ ۲۲؍جون 1939ء کو پیدا ہوئے تھےاپ کی ابتدائی تعلیم مشہور مدرسہ سلطان المدارس میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے اور وہاں انھوں نے عربی ادب میں پی․ایچ․ڈی․ کی۔ عربی کے علاوہ آپ کو اردو،فارسی،انگریزی اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اسلامی تعلیمات سے متعلق لکچر دینے کے لیے انھوں نے پوری دنیا کا سفر کیا ہے۔ان کے پرستاروں میں تمام مذاہب کے پیروکار شامل ہیں۔ آپ مسلمہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے کے باوجود تمام اسلامی فرقوں میں یکساں طور پر قابل احترام دیکھے جاتے ہیں اور بھارت کی سب سے بڑی سماجی و مذہبی تنظیم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔
آپ کو ہندو اور مسلمانوں، شیعوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ایک بڑے داعی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لکھنؤ شیعوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ تشددکے لیے جانا جاتا تھا خاص طور پر محرم کے دنوں میں۔لیکن ڈاکٹر کلب صادق کے اقدام اور مستقل کاوشوں سے دونوں مسالک کے مابین اعتماد سازی کے متعدد اقدام اٹھائے گئے ہیں اور خدا کے فضل و کرم سے حالات بہت بہتر ہو گئے۔
آپ نے تمام مسائل کا انتہائی گہرائی سے جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمارے مسائل کا ایک بڑا سبب جہالت ہے۔ آپ نےجہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کے لیے پوری زندگی وقف کر دی <ref>علامہ ڈاکٹر کلب صادق، [http://www.maablib.org/scholar/dr-allama-klb-e-sadiq-life-bio/ maablib.org]</ref>۔
== توحید المسلمین ٹرسٹ ==
یہ ان کی زندگی کا مقصد بن گیا۔انہوں نے معاشرے میں تعلیمی تحریک شروع کی اور جہالت کے اندھیروں کودور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔18؍اپریل 1996ءکوانہوں نے ضرورت مند اور غریب طلباء کو تعلیمی امداد اور وظائف دینے کے لیے’توحید المسلمین ٹرسٹ(TMT) قائم کیا۔
یہ ٹرسٹ اب پورے بھارت میں بہت سارے اسکول، کالج، تکنیکی انسٹی ٹیوٹ،خیراتی اسپتال، مفت تعلیم کے پروگرام چلا رہا ہے اور ہزاروں کے قریب طلباء کو وظائف مہیا کر رہا ہے۔اس عرصہ میںT.M.T.کے وظائف سے ہزاروں افراد فائدہ اٹھا کر اب ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
مولانا ڈاکٹر کلب صادق خاص طور پر’’ T.M.T’sمفت تعلیم پروگرام‘‘ کے ساتھ منسلک ہیں معاشرے کے انتہائی مستحق اور پسماندہ طلبہ کومعیاری تعلیم، آمدورفت،یونیفارم،اسٹیشنری، کتابیں وغیرہ بالکل مفت فراہم کراتا ہے۔اس پروگرام کے تحت لکھنؤ، الہ آباد، جونپور،علیگڑھ، مراد آباد،جلال پور،بارہ بنکی وغیرہ جیسے بھارت کے مختلف شہروں میں طلبا معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت ڈاکٹر کلب صادق نے لکھنؤ میں ایک مکمل مفت تعلیمی مرکز قائم کیا ہے جو’ یونٹی مشن اسکول‘ کے نام سے جانا جاتا ہے یہاں جوطلبا زیر تعلیم ہیں اور ان کے تمام اخرجات بشمول کتابیں،کاپیاں اور یونیفارم TMTمہیا کراتی ہے۔
یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ سر سید احمد خاں کے بعدکسی بھی مسلم رہنما نے، مسلم معاشرے میں جدید تعلیم اور سائنسی مزاج پھیلانے کی اتنی کوشش نہیں کی جتنی ڈاکٹر کلب صادق نے کی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ڈاکٹر کلب صادق کو دوسرا سر سید کہنے لگے ہیں۔
میں۲۲؍جون 1939ء کو پیدا ہوئے تھے۔
== رفاہی اور تعمیری خدمات ==
ڈاکٹر صادق کی قابل رہنمائی اور نگرانی میں چلنے والی تعلیمی،رفاہی اور تعمیری منصوبوں میں شامل ہیں:
* توحیدمسلمین ٹرسٹ
* یونٹی کالج ، لکھنؤ
* یونٹی مشن اسکول ،لکھنؤ اور
* یونٹی انڈسٹر یئل ٹریننگ سنٹر، لکھنؤ
* یونٹی پبلک اسکول، الہ آباد
* ایم․یو․کالج ،علی گڑھ
* یونٹی کمپیوٹر سنٹر، لکھنؤ
* حنا چیریٹبل ہاسپٹل، لکھنؤ
* توحیدالمسلمین میڈکل سنٹر،شکار پور
* توحیدالمسلمین بیواؤں کی پنشن اسکیم
* توحیدالمسلمین یتیموں کی تعلیم کا بندوبست
* یونٹی فری ایجوکیشن پروگرام لکھنؤ، جونپور، جلالپور،الہ آباد، بارہ بنکی، مراد آباد اور علی گڑھ۔
* مولانا کلب صادق’ایرا میڈکل کالج ‘ کے صدر اور جنرل سکریٹری آف آل انڈیا شیعہ کانفرنس رہے اس کے علاوہ اپ انجمن وظیفہ سادات و مومنین کے بھی سر گرم محرک و رکن رہے۔
انہوں نے اپنی پوری زندگی اس مشن کو جاری رکھا۔وہ صرف ایک موضوع پر بات کرتے ہیں اور وہ ہے ’تعلیم‘ اس کے علاوہ مولانا کسی بھی موضوع پر بات نہیں کرتے خصوصاً آپ نے اختلافی مسائل کو اپنا موضوع نہیں بنایا۔
جدید وسائل ابلاغ نے فاصلے ویسے ہی کم کر دئیے ہیں جس کی وجہ سے آپ کی بہت سی تقاریر سننے اور سرگرمیوں سے آگاہی ملتی رہی۔ آپ کی بیماری و صحت یابی کی خبریں بھی تواتر سے آ رہی تھیں۔
چند دن پہلے کی بات ہے کہ بیٹی نے بتایا کہ آپ کے پسندیدہ مولانا کا انتقال ہو گیا ہے۔ فوراً تصدیق کے لیے سرچ کی تو معلوم ہوا کہ یہ جعلی خبر ہے۔ مگر اب تو ان کا جانا ہو ہی گیا اور وہ 24 نومبر 2020ء کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
ناصر کاظمی نے آپ جیسے لوگوں کے لیے کہا ہے:-
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
== خطابت ==
1980ء کی دہائی میں سید العلماء علی نقی نقوی کی نے مجالس کو جو پیمانہ ذہن میں بنا دیا تھا کم ہی مقررین اس تک پہنچ سکے۔ جب آپ کا آنا موقف ہوا تو یہ قلق ہی رہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے خزانے میں کیا کمی ہے۔ وہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ موجود ہے۔
ایک دن کسی نے بتایا کہ ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر کلب صادق مجلس سے خطاب کریں گے جو کہ سید العلماء کے عزیز بھی ہیں۔ اسی شوق میں کہ مجلس سننے پہنچ گئے۔ کسی کی رہائش گاہ پر مجلس تھی۔ عصر کا وقت تھا۔ ڈاکٹر کلب صادق رونق افروز منبر ہوئے۔ پہلی جھلک سے تو مایوسی ہوئی۔ منحننی سا جسم، نہ عبا نہ عمامہ اور خشخشی سی داڑھی۔ بھلا یہ کیا تقریر کریں گے کئی مرتبہ دل میں سوچا۔ آپ نے انتہائی سادہ انداز میں حضرت علی علیہ السلام کے دور حکومت پر بات کی اور اس حکومت کی خوبیوں کو بیان کیا۔ مولا علی کا ذکر ہو مولائی نعرے نہ لگائیں یہ ہو نہیں سکتا۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے دور حکومت کو انتہائی خوبصورت انداز میں حکومت اسلامی سے تطبیق دی تو دل عش عش کر اٹھا۔ بس اس دن سے آپ میرے پسندیدہ مقررین کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ وہ جب لاہور تشریف لاتے تو میں ضرور سماعت کرتا۔ باب علم فاؤنڈیشن کے سلسلہ مجالس میں بھی جن مجالس سے آپ نے خطاب کرنا ہوتا انہی مجالس میں شریک ہوتا۔ میرے بچوں کو بھی آپ پسند تھے کیونکہ جو یہ کہتے ہیں وہ سمجھ میں آتا ہے۔ جلسات و کانفرانس ہوں یا سمینار مجمع غیر مسلم ہو یا اہل اسلام سنیوں کا یا شیعہ — سامعین بڑے شوق اور بے چینی کے ساتھ آپ کی تقریر اور بیان کے منتظر رہتے اور جب بیان ہوتا تو مجمع کے انہماک اور توجہ سے لگتا کہ جیسے کہ آپ کی سحربیانی نے اُن کی سماعتوں کو مسخر کر دیا ہو <ref>سید کرامت حسین، حکیم امت، مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق مرحوم، حکیم امت، [https://ur.hawzahnews.comحکیم%20امت،%20مولانا%20ڈاکٹر%20سید%20کلب%20صادق%20مرحوم/news/386057/حکیم-امت-مولانا-ڈاکٹر-سید-کلب-صادق-مرحوم ur.hawzahnews.com]</ref>۔
ایک مرتبہ برادر ثاقب اکبر کراچی میں عشرہ محرم گزار کے اے تو ایک کتاب کا مسودہ ان کے پاس تھا۔ بتایا کہ ڈاکٹر کلب صادق نے قرآن و سائنس کے موضوع پر مجالس سے خطاب کیا۔ اہمیت کے پیش نظر ان کی تمام تقاریر کو تحریر کر دیا ہے اب اسے چھپوانا ہے۔ یوں یہ تقاریر کا مجموعہ مصباح القرآن ٹرسٹ نے شائع کیا۔24 نومبر 2020 بروز منگل اس دنیا سے رحلت کر گئے <ref>سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 25نومبر بروز بدھ۔2020</ref>۔
== تعزیتی پیغام ==
ڈاکٹر کلب صادق نقوی کے انتقال پرملال پر آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی کا تعزیتی پیغام:
وہ شخصیت جس نے اپنی انتھک کوششوں سے شیعوں پر بڑا احسان کیا۔ میں بہت قریب سے ان کے ساتھ رابطے میں تھا اور انہیں ایک متعہد، متواضع، زاہد، پارسا اور مجاہد شخص کے عنوان سے جانتا ہوں وہ اپنے اخلاق حسنہ کے ذریعے لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے تھے۔
آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ کے نائب سربراہ اور اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی جنرل اسمبلی کے رکن مولانا ڈاکٹر کلب صادق نقوی کے انتقال پرملال پر عالم تشیع کے مرجع تقلید شیخ الفقہا آیت اللہ العظمیٰ "لطف اللہ صافی گلپائیگانی" نے تعزیتی پیغام دیا ہے۔
موصوف کے پیغام کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
بسمہ تعالیٰ
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيهِ رَاجِعُونَ
ممتاز دانشمند، قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کی نورانی تعلیمات کو پھیلانے اور عام کرنے والے ذریت رسول ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی خبر دکھ اور افسوس کا باعث بنی۔
وہ شخصیت جس نے اپنی انتھک کوششوں سے شیعوں پر بڑا احسان کیا۔ میں بہت قریب سے ان کے ساتھ رابطے میں تھا اور انہیں ایک متعہد، متواضع، زاہد، پارسا اور مجاہد شخص کے عنوان سے جانتا ہوں وہ اپنے اخلاق حسنہ کے ذریعے لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے تھے۔ اس عظیم المرتبت عالم کے نقصان پر ہندوستان کے علمی اور دینی معاشرے، معزز نقوی خاندان اور مرحوم کے عقیدت مندوں کو تسلیت پیش کرتا ہوں، اور مرحوم کے بلندی درجات کے لیے خداوند عالم سے دعا مانگتا ہوں۔9 ربیع الثانی ۱۴۴۲ ھ ق لطف اللہ صافی <ref>ڈاکٹر کلب صادق نقوی کے انتقال پرملال پر آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی کا تعزیتی پیغام، [https://ur.abna24.com/story/1089337 abna24.com]</ref>۔
== اسلامی تاریخ ==
= قبل از اسلام عرب کی مذہبی ، اخلاقی اور سیاسی حالت =
حضرت ابراہیم نے مکہ میں سب سے پہلا اللہ کا گھر بنایا خانہ کعبہ سارے عرب کا مرکز تھا۔ حج کے موقع پر ہزاروں آدمی آتے تھے ( نوٹ حضور سے پہلے بھی مکہ میں حضرت ابراہیم کی یاد میں حج ہوتے تھے لوگ ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے حرم کی زیارت کے لئے آتے تھے اور ان کی میزبانی کے فرائض قریش ادا کرتے تھے منی میں حجاج کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ عرب گو دین ابراہیمی کے پیرو تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی صورت بالکل مسخ ہو چکی تھی اور توحید کا رخ زیبا شرک اور بت پرستی کے ادھام میں چھپ کر رہ گیا تھا ۔ خدائے واحد کے ساتھ اور بہت سے کارساز شریک ہو گئے تھے۔ فرشتوں کو خُدا کی بیٹیاں کہتے تھے بتوں کو مظہر خدا مان کر ان کی پرستش کرتے تھے۔ سینکڑوں بتوں کی پوجا ہوتی تھی ان میں لات، منات ہبل اور عزی زیادہ با عظمت تھے ۔ ہبل خاص خانہ کعبہ کی چھت پر نصب تھا تمام عرب اس کی پرستش کرتے تھے ۔ عزی کی پرستش ارکان حج میں داخل تھی ان بتوں کے نام پر سانڈ چھوڑے جاتے تھے ان پر انسانوں کی قربانیاں ہوتی تھیں ۔ بتوں کے نام سے تیروں کے ذریعے قرعہ اندازی ہوتی تھی۔ ان کے علاوہ سینکڑوں لکڑی اور مسالے کے خانہ ساز (بت ) اور خانگی خدا تھے۔ سیرۃ ابن ہشام ج اول اور کتاب الاصنام، تجلی وغیرہ میں ان بتوں کی پوری تفصیل ہے <ref>تاریخ اسلام جلدا صفحه نمبر ۳۰</ref>۔
== عرب ==
عرب کے لفظی معنی فصیح اللسان اور زبان آور کے ہیں چونکہ عرب اپنی فصاحت اور زبان آوری کے مقابلہ میں ساری دنیا کی زبانوں کو ہیچ سمجھتے تھے اس لیئے عرب کو فصیح اللسان یعنی سب زبانوں سے افضل زبان سمجھتے ہیں۔
== وجہ تسمیہ ==
اہل لغت کے نزدیک عرب اعراب سے مشتق ہے جس کے معنی فصاحت اور زبان آوری کے ہیں۔ چونکہ عرب فصیح اللسان اور زبان آور تھے اس وجہ سے انہوں نے اپنا نام عرب رکھا اور باقی تمام دنیا کی اقوام کو عجم کے نام سے پکارا۔
== عرب کے معنی ==
ژولیدہ بیان اور گونگے کے بھی ہیں عرب مشتق ہے عربہ سے جس کے معنی دشت و صحرا کے ہیں چونکہ عرب کا بڑا حصہ دشت و صحرا پر مشتمل ہے اس لئے سارے ملک کو عرب کہنے لگے ۔ اہلِ جغرافیہ کے نزدیک عرب کا پہلا نام عربہ تھا اور چونکہ عربہ سامی زبان کا لفظ ہے ۔ سامی زبان میں عربہ کو صحرا یا باد یہ بھی کہتے ہیں چونکہ عرب کا ملک زیادہ تر بیابان اور ریگستانی ہے اس لئے اس کا نام عربہ پڑ گیا پھر آہستہ آہستہ وہاں کے رہنے والوں کو بھی عرب کہا جانے لگا۔
== حدود و وسعت عرب ==
عرب تین براعظموں یعنی ایشیا ، یورپ اور افریقہ میں مرکز کے طور پر ہے۔ تین طرف سے سمندر سے گھرا ہوا ہے مشرق میں خلیج فارس اور بحر عمان، جنوب میں بحر ہند مغرب میں بحر احمر، عرب خشکی اور تری دونوں راستوں سے دنیا کو اپنے دائیں اور بائیں ملا کر ایک کر رہا ہے۔
== عرب کی پیمائش ==
عرب کی پیمائش حقیقی طور سے نہیں ہوئی عرب ہندوستان سے بڑا ہے اور ملک جرمن اور فرانس سے چار گنا بڑا۔ طول تقریباً چودہ سو میل اور عرض  میں زیادہ اور شمال میں کم ہوتا گیا مجموعی رقبہ تقریبا بارہ لاکھ مربع میل ہے۔ عرب کا بڑا حصہ ریگستانی ہے شمالی حد میں شام اور عرب کے درمیان ریگستان ہے جس کو بادیہ شام یا بادیہ عرب کہا جاتا ہے۔ جنوبی حد میں عمان اور یمامہ کے درمیان ایک وسیع صحرا ہے جس کو الدھنا یا ربع الخالی کہا جاتا ہے عرب کا سب سے بڑا اور طویل سلسلہ پہاڑ جبل السراۃ ہے جو جنوب میں یمن سے شروع ہو کر شمال میں شام تیک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی اونچائی آٹھ ہزارفٹ ہے حجاز کا سب سے بڑا پہاڑ جبل الہدی طائف کا جبل الکر ا، نجد کا جبل عارض وطریق ہے۔ عرب میں کوئی دریا نہیں ہے پہاڑوں سے چشمے جاری رہتے ہیں کبھی کبھی یہ چشمے پھیل کر دُور دُور تک ایک مصنوعی دریا بن جاتے ہیں پھر ریگستان میں جذب ہو جاتے ہیں۔ یا سمندروں میں گر جاتے ہیں جو حصے سمندر کے نزدیک ہیں سرسبز و شاداب اور زرخیز ہیں عمان نجد یمن کا صوبہ بہت زرخیز ہے۔
== عرب کی پیداوار ==
عرب کی پیداوار زیادہ تر کھجور اور سیب ہیں۔
== عربوں کے پیشے ==
عربوں کے پیشے تجارت ، زراعت اور گلہ بانی تھے۔
== نجد ==
وسط عرب میں ایک سرسبز و شاداب زرخیز اور بلند قطعہ ہے تین طرف صحراؤں پہ محیط ہے۔ نجد کے عربی گھوڑے اور اونٹ بہت مشہور ہیں ہر قسم کے میوے پیدا ہوتے ہیں۔
== احقاف ==
یہاں پر کبھی عاد کی زبردست قوم آباد تھی جس کی تباہی کا ذکر قرآن میں ہے۔
== حجاز ==
حجاز مستطیل ہے اور بحر احمر کے ساحل کے پاس ہے حجاز پہاڑی علاقہ ہے جس میں مکہ، مدینہ اور طائف کے مشہور شہر آباد ہیں۔ اس کی دو بڑی بندرگا ہیں ہیں:
* جدہ جہاں سے مکہ معظمہ کو جاتے ہیں۔
* ینبوع جہاں سے مدینہ منورہ کو جاتے ہیں۔
== مکہ ==
حجاز مکہ کا دارالخلافہ ہے یہ ایک بے آب و گیاہ وادی میں واقع ہے اس کے  چاروں طرف خشک پہاڑیاں ہیں اس آبادی کی ابتدا حضرت اسماعیل کے زمانہ سے ہوئی تھی اسی شہر میں حضور پیدا ہوئے اس شہر میں خانہ کعبہ ہے جس کے معمار حضرت ابراہیم تھے یہی وہ پہلا اسلام کا چشمہ ہے۔
== مدینہ ==
مدینہ کا پرانا نام یثراب  ہے جب حضرت محمد ﷺ یہاں آئے تو اس کا نام مدینہ پڑ گیا۔
== طائف ==
حجاز کی جنت ہے بہت زرخیز علاقہ ہے یہ مکہ معظمہ سے مشرق کی طرف واقع ہے۔
== قدیم تاریخ ==
عرب لسانی اعتبار سے سامی ہیں مورخین نے انہیں تین طبقات پر تقسیم کیا ہے۔
(۱) عرب با نده (۲) عرب عاربه (۳) عرب مستعربه
== عرب بائدہ ==
یہ وہ قدیم طبقہ ہے جو تاریخی دور سے ہزاروں سال پہلے مٹ چکا تھا عاد و ثمود کی قومیں اسی طبقہ سے تھیں۔ اشعار عرب اور بعض الہامی صحیفوں کے
علاوہ کسی تاریخ سے ان کے حالات کا پتہ نہیں چلتا ۔
== عرب عاربہ ==
یہ طبقہ قحطانی کہلاتے ہیں تاریخ موجود ہے یہ لوگ یمن کے آس پاس آباد تھے۔ یہی لوگ عرب کے اصلی باشندے ہیں اور عرب کی قدیم تاریخ ان ہی سے وابستہ ہے عرب میں ان کی بڑی بڑی اور ترقی یافتہ حکومتیں تھیں ۔ ان کے عظیم الشان محلات کے کھنڈرات اب تک عرب میں پائے جاتے ہیں جو ان کے
نیاوی جاہ و جلال کے شاہد ہیں۔
== عرب مستعربه ==
یہ طبقہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ظاہر ہوا ہے ظہور اسلام کے وقت یہی دو طبقے عرب میں تھے اسلام کی ابتدا ان ہی  وابستہ ہے۔
عرب کی دینی تاریخ کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے حضرت ہاجرہ کے شکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے حضرت سارہ نے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی بیوی تھیں مجبور کیا کہ حضرت ابراہیم دونوں کو ان کی نگاہ سے دور کر دے اس لئے حضرت ابراہیم نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے جا کر عرب میں آباد کیا ۔ حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کے لئے مکہ میں خدائے واحد کی پرستش کے لیئے بے چھت کا ایک چھوٹا سا گھر بنایا اور حضرت اسماعیل کو اس کا متولی بنا کر اس گھر کی آبادی و مرکزیت اور نسل اسماعیل کی برومندی کے لئے خُدا سے دُعا کی اسلام کے مطابق روئے زمین پر یہ پہلا گھر تھا جو خالص خدائے واحد کی عبادت کے لئے بنایا گیا۔
جہرم  کا قبیلہ مکہ میں آکر آباد ہوا حضرت ابراہیم کی زندگی ہی میں کعبہ کو عرب میں مرکزیت حاصل ہو گئی تھی۔
== آل اسماعیل ==
حضرت اسماعیل نے قبیلہ کے سردار مضماض جرہمی کی لڑکی سے شادی کی اس سے بارہ اولادیں ہوئیں ان میں سے نابت وقیدار کی نسل نے بڑا دنیاوی جاہ و جلال حاصل کیا ۔ حضرت اسماعیل کے بعد کعبہ کی تولیت کا منصب ان کے لڑکے ثابت کے حصہ میں آیا آل اسماعیل میں نسل در نسل کے بعد یہ منصب عدنان تک پہنچا۔ یہ بڑا تاریخی شخص تھا آنحضرت اور اکثر صحابہ کا سلسلہ نسب ان سے ہوتا ہے عدنان کی اولاد بہت پھلی پھولی ان کا خاص پیشہ تجارت تھا۔
== خاندان قریش ==
عدنان کی نسل سے خاندان قریش کی بنیاد پڑی اس نسبت سے اس کی نسل قریشی کہلاتی ہے۔ قریش کی پانچویں پشت میں ایک تاریخی شخص قصی پیدا ہوا ۔ قریش کی اجتماعی اور سیاسی زندگی کا آغاز اس نامور شخص سے ہوتا ہے قصی کا  باپ بچپن ہی میں مر گیا تھا اور قصی کی ماں نے قبیلہ بنی عذرہ میں دوسری شادی کر لی تھی۔ اس لئے قصی کا بچپن بی عذرہ میں گذرا قصی بچپن ہی سے نہایت حوصلہ مند عاقل و فرزانہ اور امارت پسند تھا قصی کی چھ اولا دیں تھیں ۔
(۱) عبددار (۲) عبد مناف (۳) عبدالعزی (۴) عبد (۵) تخحر (۶) برہ  قصی کے مرتے وقت قصی نے حرم کے تمام منصب عبددار کو دیے اور قریش کی سعادت عبد مناف نے حاصل کی ۔ عبد مناف کے چھ لڑکے تھے ان میں ہاشم جو رسول اللہ کے دادا سب سے زیادہ با اثر تھے ۔
== بنی ہاشم کی خدمات ==
کعبہ کے متولیوں میں قصی کے بعد ہاشم بڑے رتبہ کے آدمی تھے انہوں نے اپنے زمانہ میں خاندان قریش کی بڑی عظمت قائم کی ۔ قریش کا آبائی پیشہ تجارت تھا حجاج کو بڑی فیاضی اور سیر چشمی سے کھانا کھلاتے تھے۔ اُنہوں نے مدینہ کے خاندان بنی نجار میں شادی کی لیکن شادی کے بعد شام جاتے ہوئے انتقال کر گئے بیوہ سے ایک فرزند تولد ہوا جس کا نام شیبہ رکھا گیا۔ ان کے بھائی مطلب کو خبر ہوئی تو وہ مدینہ جا کر یتیم بچے کو لے آئے اور اپنی آغوش شفقت میں ان کی پرورش
کی ان کی پرورش کی وجہ سے شیبہ کا نام عبد المطلب یعنی مطلب کا غلام پڑ گیا۔
== حضرت عبد المطلب ==
حضرت عبدالمطلب مسن شعور کو پہنچنے کے بعد باپ کی جگہ نے منت مانی تھی کہ اگر وہ اپنی پوری زنددگی میں اپنے دس لڑکوں کو جو ان دیکھ لیں گے تو اُن میں سے ایک لڑکا خدا کی راہ میں قربان کریں گے ۔ جب اُن کی آرزو پوری ہوئی تو منت اُتارنے کے لیئے دسوں لڑکوں کو لے کر کعبہ گئے حضرت عبداللہ کے نام جو تمام اولاد میں سے زیادہ محبوب  تھے قرعہ نکلا <ref>سیره ابن شام جلد نمبر اول میں ۱۲/۱۳</ref>۔
== حضرت عبدالله ==
حضرت عبدالمطلب نے قبیلہ زہرہ کے رئیس وہب بن مناف کی لڑکی  آمنہ کے ساتھ حضرت عبداللہ کی شادی کر دی۔ شادی کے تھوڑ ے ہی دنوں بعد  حضرت عبداللہ کا مدینہ  میں انتقال ہو گیا<ref>تاریخ اسلام جلد اول ص 32</ref>۔
== حضرت محمد کی پیدائش ==
حضرت عبداللہ کی وفات کے چندمہینوں بعد حضور ۱۲ ربیع الاول کو پیدا ہوئے ۔ تو حضور کے دادا حضرت عبدالمطلب نے پوتے کو لے کر خانہ کعبہ میں دعا مانگی اور ساتویں دن عقیقہ کر کے محمد نام رکھا  <ref>سیرۃ ابن ہشام ج ا،ص ۸۷</ref> اور کل قریش کی دعوت کی ۔ قریش نے اس نامانوس نام رکھنے کا سبب پوچھا حضرت عبدالمطلب نے کہا میرا فرزند ساری دُنیا میں مدح وستائش کا سزاوار قرار پائے گا۔
== حضور کی پرورش ==
شرفائے مکہ میں دستور تھا کہ وہ عربی خصوصیات کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنے بچوں کو ایام رضاعت ہی میں دیہاتوں میں بھیج دیتے تھے۔ اس دستور کے مطابق چھ مہینے بعد حضرت عبدالمطلب نے اپنے پوتے کو ایک دایہ حلیمہ کو دیا۔ دو برس تک اس بچہ نے حلیمہ سعدیہ کی گود میں پرورش پائی تیسرے سال حلیمہ نے حضور کو حضور کی والدہ آمنہ کو واپس کر دیا۔ ابھی یتیم بچہ چھ سال ہی کا تھا کہ حضرت آمنہ بچہ کو لے کر مرحوم شوہر کی قبر کی زیارت کے لئے مدینہ گئیں راستہ میں مقام ابواء میں حضرت آمنہ کا انتقال ہو گیا۔ تو پھر حضرت عبدالمطلب نے اپنے ہوتے حضرت محمد ﷺ کو حضرت ابو طالب کے سپرد کیا۔ جو حضرت عبدالمطلب کا مبینا رت تھا۔ سن شعور کو پہنچنے کے بعد حضور تھا اور حضور کا چچا تھا حضرت ابو طالب کا پیشہ تجارت تھا حضور نے بھی تجارت کا پیشہ اختیار کیا طور نہایت محنت اور دیانتداری کے ساتھ
تجارت کرتے تھے حضور کی دیانتداری کی شہرت دور دور تک پھیل گئی <ref>چوہدری غلام رسول ایم ۔ اے۔، مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ، علمی کتاب خانہ کبیر سٹریٹ اردو بازار لاہور</ref>۔
== حضورکی ازواج مطہرات ==
حضور پاک نے عالم شباب میں صرف ایک ہی سن رسید داور بیوہ خاتون پر قناعت فرمائی۔ پھر زوال شباب یعنی پچاس سال کی عمر کے بعد مختلف مصالح کی بنادر مختلف اوقات میں گیارہ شادیاں کیں۔
== حضرت خدیجہ سے شادی ==
حضرت خدیجہ قریش کی ایک معزز پاکیزہ با اخلاق اور دوانند بیوہ تھیں۔ ان کا تجارتی کاروبار نہایت وسیع تھا حضور حضرت خدیجہ کا سامان لے کر بصر ہ تشریف لے گئے اس سفر میں حضرت خدیجہ کا غلام میسر بھی ساتھ تھا۔ اس غلام نے حضور کے اخلاق ، عادات مشاہدہ کئے اور واپس آکر حضرت خدیجہ سے بیان کئے ۔ حضرت خدیجہ نے حضور سے شادی کی درخواست کی آپ نے منظور فرمالیا۔ اس وقت حضور کی عمر ۲۵ سال اور حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال تھی پانچویں پشت پر دونوں کا نسب نامہ مل جاتا ہے۔ حضرت خدیجہ کی پہلی شادی ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوئی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد عتیق ابن عائد کے ساتھ معقد ہوا ان کے انتقال کے بعد آنحضرت کے عقد میں آئیں حضور کو حضرت خدیجہ سے بڑی محبت تھی ان کی زندگی میں حضور نے دوسرا نکاح نہیں کیا ۔ ہجرت سے مدینہ سے کئی سال پہلے مکہ ہی میں حضرت خدیجہ کا انتقال ہو گیا تھا ان کے بعد حضور نے متعدد شادیاں ہیں۔
== سودہ بنت زمعہ ==
سودہ بنت زمعہ سے نکاح کیا یہ بھی بیوہ  تھیں ان کے پہلے شوہر کا نام سکران بن عمرتھا آغاز دعوت اسلام میں دونوں میاں ہوئی مسلمان ہو گئے تھے جیشہ سے واپسی کے کچھ دنوں  بعد سگر ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت سود و حضور کی زوجیت میں آئیں ان کی وفات کے بارے میں بڑا اختلاف ہے۔
== حضرت عائشہ ==
حضرت عائشہ حضرت ابوبکر  کی صاحبزادی ہیں آنحضرت نے ان سے مکہ میں نکاح کیا حضرت عائشہ بڑی ذہین زیرک اور فہیم
تھیں۔ حضور نے عورتوں کے نسوانی احکام ومسائل کی تعلیم کے لیئے انہیں خاص طور اس کی تعلیم بھی تھی۔ حضرت،  صرف امہات المومنین میں نہیں بلکہ بہت سے
صاحب علم صحابہ کے مقابلہ میں ممتاز تھیں اور بڑے بڑے صحابہ مہمات ومسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے ۔ حضرت عائشہ نے 9 سال حضور کی رفاقت میں گزارے حضور کی وفات کے بعد ۴۵ سال زندہ رہیں ۵۷ ہجری میں ۶۶ سال کی عمر میں وفات پائی <ref>تاریخ اسلام جلد اول صفحه ۱۲۷</ref>۔
== حضرت حفصہ ==
یہ حضرت عمر کی صاحبزادی تھیں یہ بھی بیوہ تھیں ان کی پہلی شادی حضرت خنیس بن حذافہ کے ساتھ ہوئی تھی خنیس  غزوہ بدر میں زخمی ہوئے اور ان کے انتقال کے بعد حضور نے عقد فرمایا ان کے مزاج میں کسی قدر تیزی تھی45 ہجری میں ان کا انتقال ہو گیا۔
== ام المساکین حضرت زینب ==
ان کا نام زینب تھا فقراء اور مساکین کو بہت کھلاتی تھیں اس لئے ام المساکین کے نام سے مشہور تھیں۔ ان کے پہلے شوہر حضرت عبد اللہ بن جحش جنگ احد میں شہید ہوئے ان کی شہادت کے بعد حضور نے ان سے نکاح فرمایا۔ لیکن اس شرف کے حصول کے دو یا تین مہینوں کے بعد زینب انتقال کر گئیں۔ حضور نے نماز جنازہ خود پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کیا انتقال کے وقت ۳۰ سال عمر تھی۔
== حضرت ام سلمہ ==
ہند نام تھا ام سلمہ کنیت والد کا نام نہیں تھا۔ ان کی پہلی شادی ان کے چیرے اور آنحضرت کے رضاعی بھائی عبداللہ بن عبد الاسد کے ساتھہ ہوئی تھی عبداللہ غزوہ اُحد میں زخمی ہونے کے بعد انتقال کر گئے ۔ ان کے انتقال کے بعد حضور کے عقد میں آئیں حضور کی وفات کے بعد کافی عرصہ تک زندہ رہیں۔ ان کی سن وفات میں بڑا اختلاف ہے واقعہ کربلا کے چند سال پہلے عائشہ کے بعد انہی کا درجہ تھا۔
== حضرت زینب ==
آنحضرت کی پھوپھیری بہن تھیں ان کی شادی خود طور نے اپنے متبنی غلام حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ کر دی تھی۔ لیکن طلاق ہوگئی طلاق کے بعد حضور نے خود نکاح فرمایا یہ بڑی عابدہ، زاہدہ، فیاض اور حسین وجمیل تھیں۔ ان اوصاف کی بنا پر حضور انہیں بہت محبوب رکھتے تھے امہات المومنین میں یہی حضرت عائشہ کی ہمسری کرتی تھیں حضور کے بعد ازدواج مطہرات میں سب یا اسی سال یعنی ۶۱ ہجری میں انتقال ہوا اس وقت اُن کی عمر ۸۴ سال تھی حضرت
سے پہلے انہی کا انتقال ہوا ۲۰ ہجری میں ۵۳ سال کی عمر میں وفات پائی۔نوٹ : امہات : جمع کا صیغہ ہے اور یہ اُم کی جمع ہے امہات المومنین کے معنی ہیں مومنوں کی مائیں حضور کی ازدواج مطہرات کو قرآن میں مومنوں کی مائیں کہا گیا ہے
لفظ اُمہات اس کا مطلب ہے والدہ جن سے وہ پیدا ہوا ہے۔
== حضرت جویریہ ==
یہ قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارث بن ضرار کی بیٹی تھیں۔ ان کی پہلی شادی مسافح بن صفوان سے ہوئی تھی جو غز وہ مرسیع میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ غزوہ میں بہت کی لونڈیاں غلام گرفتار ہوئے انہی میں جو یریہ  بھی تھیں یہ ثابت بن قیس انصاری کے حصہ میں پڑیں ۔ ذی وجاہت خاندان کی خاتون تھیں غلامی کو غیرت نے گوارا نہ کیا 19 اوقیہ سونے پر ثابت سے رہائی کی شرط قرار پائی۔ لیکن پاس کچھ نہ تھا حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی گذشتہ عظمت اور موجودہ صورت حال بیان کر کے مدد کی طالب ہوئیں ۔ آپ نے ان کی رضا سے ثابت کی رقم ادا کر کے ان سے شادی کر لی۔ اس رشتہ کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں نے حضور کے  ساتھ التعلق کی وجہ سے بنی مصطلق کی تمام لونڈیاں غلام آزاد کردیئے ۵۰ ہجری میں ۶۵  سال کی عمر میں انتقال ہوا۔
== حضرت ام حبیبہ ==
اصلی نام رملہ اور ام جیبہ کنیت ہے ۔ یہ بھی قریش کے خاندان سے تمھیں اپنے پہلے شوہر عبد اللہ بن جحش کے ساتھ شادی ہوئی ۔ حبشہ کی دوسری ہجر سے ہیں حبشہ گئیں حبشہ میں ان کے شوہر نے عیسوی مذہب اختیار کر لیا ۔ لیکن یہ خود اسلام پر قائم رہیں اس لئے عبد اللہ بن بخش نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی حضور کو یہ واقعات جب معلوم ہوئے تو آپ نے نجاشی شاہ حبش کی وساطت سے ان کے پاس شادی کا پیغام بھیجا۔ اُنہوں نے قبول کر لیا اور ان کی جانب سے مخالد بن سعید اموی اور حضور کی جانب سے نجاشی کی وکالت میں چار سو (۲۰۰) دینار پر عقد ہوا ۔ نجاشی نے حضور کی جانب سے مہر کی رقم ادا کی اور ولیمہ کیا نکاح کے بعد حضرت ام حبیبہ کو شرجیل بن حسنہ کے ساتھ حضور کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا اُنہوں نے ۴۴ ہجری میں وفات پائی۔
== حضرت میمونہ ==
ان کے والد کا نام حارث تھا ان کی پہلی شادی مسعود بن عمرو شفی کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس نے طلاق دے دی تو ابو در ہم بن عبد العزئی نے نکاح کیا ان کے انتقال کے بعد حضور کے عقد میں آئیں ان کی وفات میں بھی اختلاف ہے صیح اللہ ہجری میں بمقام سرف انتقال ہوا۔
== حضرت صفیہ ==
اصل نام زینب ہے یہ غزوہ خیبر میں امام وقت کے پانچویں حصے میں پڑی تھیں جسے صفی بھی کہتے ہیں۔ اس لئے صفیہ کہلا ئیں نسلاً اور مذہبا یہود یہ تھیں ان کے نہال اور دودھیال دونوں میں سرداری تھی ۔ ان کا باپ می بن 40
الطلاب قبیلہ بی نظیر کار میں تھا اور ان کی ماں بنی قریظہ کے رئیس کی بنی تھیں ۔ ان کی پہلی شادی سلام بن مشکم یہودی سے ہوئی تھی اس نے طلاق دے دی حضور حضرت علیہ کی بڑی عزت اور محبت کرتے تھے ازدواج مطہرات میں طور ان کی دلجوئی فرماتے تھے۔ <ref>تاریخ سلام ج 1، ص ۱۲۹</ref>۔
== اولا واحفاد ==
آنحضرت نے کی اولا واحفاد کے بارے میں بڑا اختلاف ہے  مختلف روایتوں کی روسے ان کی تعداد بارہ تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن متفق علیہ بیان یہ ہے کہ چھ اولا دیں تھیں دو صاحبزادے قاسم اور ابراہیم اور چار صاحبزادیاں زینب، رقیہ ام کلثوم ، فاطمہ زہرا" بعض روایتوں میں دو اور صاحبزادوں طیب اور طاہر کا نام بھی ملتا ہے ان میں ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے باقی کل حضرت خدیجہ سے قاسم سب سے پہلی اولاد تھے۔ ان کی پیدائش نبوت سے گیارہ بارہ سال پیشتر ہوئی تھی لیکن بچپن ہی میں انتقال کر گئے آنحضرت کی کنیت ابو القاسم انہی کے نام پر تھی۔ سب سے آخری اولا د ابراہیم تھے یہ ۸ ہجری میں پیدا ہوئے اور کل سوا دو مہینے زندہ رہے ان کی موت کے دن اتفاق سے سورج گرہن ہوا، لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ ابراہیم کی موت اس کا سبب ہے۔ رسول اللہ نے اس کی تردید فرمائی کہ چاند اور سورج خدا کی نشانیاں ہیں کسی کی موت سے ان میں گر جن نہیں لگتا۔
صاحبزادیوں میں زینب سب سے بڑی تھیں یہ قاسم کے بعد پیدا ہوئیں زینب نے آنحضرت کی حیات ہی میں ۸ ہجری میں انتقال کیا ایک لڑکا علی اور ایک لڑکی امامہ یادگار چھوڑی ۔ سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہرا تھیں ان کا نکاح حضرت علی سے ہوا ان کی پانچ اولا دیں تھیں امام حسن ، امام حسین ، ام کلثوم، زینب محسن محسن کا انتقال بچپن میں ہو گیا تھا <ref>تاریخ سلام ج ا ص ۱۳۰</ref>۔
حضور تکمیل دین کے آخری فرائض سے سبکدوشی کے بعد ۱۸ یا ۹ اصفر ہجری کو آپ مسلمانوں کے گور غریباں جنت البقیع تشریف لے گئے ۔ وہاں سے واپس
ہوئے تو مزاج ناساز ہو گیا بیماری کی حالت میں بھی آپ از راہ عدل باری باری سے ازدواج مطہرات کے گھروں میں بسر فرماتے تھے۔ جب مرض زیادہ بڑھا تو ان سے اجازت لے کر حضرت عائشہ کے ہاں مستقل قیام فرمایا۔ وفات سے چار دن پہلے (جمعرات) کو آنحضرت نے فرمایا دوات اور کا غذ لاؤ۔ میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو گے حضرت عمر نے لوگوں سے کہا حضور کومرض  کی شدت ہے ہمارے پاس قرآن موجود ہے جو ہمارے لیئے کافی ہے اس پر حاضرین میں اختلاف ہوا بعض کہتے ہیں کہ تعمیل ارشاد کی جائے بعض حضرات حضرت عمر کی تائید میں تھے ۔ ( یہ واقعہ اہلِ سنت اور شیعوں کے درمیان بڑا معرکہ الاراء بن گیا )۔ شیعوں کا دعوی ہے کہ آنحضرت حضرت علی کی خلافت کا فرمان لکھوانا چاہتے تھے جسے حضرت عمر نے رکوا دیا۔
سنی کہتے ہیں کہ آنحضرت کو واقعی مرض کی شدت تھی دین مکمل ہو چکا تھا۔ شریعت کا کوئی حکم تعمیل کے لئے باقی نہ رہ گیا تھا۔ ضروری اور دینی حکم ہوتا تو آنحضرت کسی کے روکنے سے نہ رک سکتے تھے۔ اس دن نماز ظہر کے وقت طبعیت کو کچھ سکون ہوا تو غسل فرما کر حضرت علی اور حضرت عباس کے سہارے مسجد تشریف لے گئے نماز کے بعد خطبہ دیا یہ آپ کی زندگی کا آخری خطبہ تھا۔
== تجہیز و تکفین ==
وفات دوشنبه ۱۲ ربیع الاول 11 ہجری کو ہوئی وفات کے دن شام ہو چکی تھی تجہیز و تکفین اور قبر کنی کے مراحل رات سے پہلے انجام نہ پاسکتے تھے اس لئے دوسرے دن سہ شبینہ کو تجہیز و تکفین عمل میں آئی غسل وغیرہ کی سعادت کا اعزاز خاص حضرت علی فضل بن عباس، قشم بن عباس اور اسامہ بن زیدکے حصہ میں آیا حضرت ابوطلحہ نے قبر مبارک کھودی اور باری باری سے مسلمانوں نے بلا امام نماز جنازہ پڑھی اور شنبه ۱۳ ربیع الاول مطابق ۱۱ ہجری (۶۳۲ء ) حضور کو حضرت عائشہ کے حجرہ پاک و مظہر زمین کے سپر د کر دیا <ref>تاریخ سلام ج اص ۱۲۴</ref>۔
== اسلامی کیلنڈر ==
اسلامی کیلنڈر سال کے بارہ مہینوں پرمشتمل اور ایک ایک حرف ایک ایک مہینے کے لئے ہوتا ہے۔ اسلامی کیلنڈر کے مطابق اسلامی سال یکم محرم سے شروع ہوتا ہے اور یکم محرم (۱) فروری ۲۰۰۶ ء سے نیا اسلامی سال شروع ہوا ہے اور اسلامی سن ۱۴۲۷ ہجری ہوگا اور آگے جو ۲۰۰۷ ء نیا سال جو یکم محرم کو شروع ہو گا وہ ۱۴۲۸ ہجری ہوگا اور اسلامی کیلنڈر سال کے ۳۵۵ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ عیسوی کیلنڈر سال کے ۳۶۵ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیپ کا سال ہو تو ۳۶۶ دن ہوتے ہیں اسلامی سال اور عیسوی سال دونوں میں تقریبا دس دنوں کا فرق ہے اسلامی سال عیسوی سال سے دس دن کم ہے۔
نوٹ: اسلامی تہواروں کا انحصار چاند نکلنے پر ہے اسلامی مہینے قمری کہلاتے ہیں اور سال ہجری حضور نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی اُس وقت سے ہجری سال شروع
ہوا ہے سن عیسوی حضرت عیسی کی پیدائش سے شروع ہوا۔
== قمری ==
اُردو لغت میں قمر سے منسوب وہ مہینے یا سال جو چاند کی چال کے مطابق قرار دیئے گئے ہیں۔
قمر : تیسری رات کے بعد کا چاند پہلی اور دوسری رات کے چاند کو ہلال کہا جاتا ہے۔ قمری مہینوں کا آغاز چونکہ چاند نکلنے سے ہوتا ہے اسلامی شریعت نے مہینے اور
سال کے سلسلے میں نظام قمری کا اعتبار کیا ہے۔
== محرم الحرام ==
اسلامی قمری سال کا آغاز یکم محرم الحرام کے مہینہ سے ہوتا ہے دس محرم الحرام کا دن بہت برکت والا دن سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کے مطابق اسی دن عرش،
کرسی ، آسمان، زمین ، سورج ، چاند ستارے اور جنت پیدا کئے گئے ۔
== صفر المظفر ==
اسلامی قمری سال کے دوسرے مہینے کا نام صفر ہے تصوف کے بابا فرید الدین فرماتے ہیں کہ ایک برس میں دس لاکھ اسی ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں اور ماہ صفر میں تو لاکھ ہیں ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ اسی ماہ صفر میں قابیل نے بابیل کو قتل کیا حضور کا ارشاد اس طرح سے ہے کہ جو کوئی مجھے صفر کا مہینہ گزر جانے کی خبر دے گا میں اسے جنت میں جانے کی بشارت دوں گا۔ ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کے متعلق مشہور ہے کہ اس دن حضور نے بیماری سے صحت پائی تھی اس بنا پر اس
جوان کھانے وشیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔
== ربیع الاول ==
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے حضرت محمد ﷺ کی ولادت اس ماہ میں ہوئی تھی حضور کا وصال بھی اس مہینہ میں ہوا تھا۔
== ربیع الثانی ==
اسلامی قمری سال کا چوتھا مہینہ ہے اس ماہ کو ربیع الآخر بھی کہا
جاتا ہے۔
== جمادی الاولی ==
اسلامی قمری سال کے پانچویں مہینہ کا نام جمادی الاولی ہے۔ جہادی کے معنی ہیں کسی چیز کا جم جانا چونکہ جن دنوں موسم سرما کی شدت کی وجہ
سے پانی جمنے کا آغاز ہوتا ہے اس لیئے اس ماہ کو جمادی الاولی کہا جاتا ہے۔
== جمادی الثانیہ ==
اسلامی سال کے چھٹے مہینہ کا نام جمادی الثانیہ ہے اس کو ابو بکر صدیق کا وصال ہوا تھا۔
جمادی الآخر بھی کہا جاتا ہے۔
== رجب المرجب ==
اسلامی قمری سال کا ساتواں مہینہ ہے ،رجب المرجب کے مہینہ کی پہلی جمعرات کو عبادت الہی کرنے سے بے شمار ثواب حاصل ہوتا ہے۔
حضور نے فرمایا ہے کہ اس مہینہ میں خاص طور پر مغفرت ہوتی ہے ملائکہ اس شب کو لیلتہ الرغائب ( یعنی مقاصد کی شب ) کہتے ہیں اس رات تمام آسمانوں اور زمینوں میں کوئی فرشتہ ایسا باقی نہیں رہتا جو خانہ کعبہ یا اطراف کعبہ میں جمع نہ ہو ۔ اُس وقت پروردگار عالم تمام فرشتوں کو اپنے دیدار سے مشرف کرتا ہے ماہ رجب المرجب کی ستائیسویں شب معراج کو ستر ہزار ملائکہ نور کے طباق لئے ہوئے زمین پر نازل ہوتے ہیں اور ہر گھر میں جاتے ہیں۔
== شعبان المعظم ==
اسلامی سال کے آٹھویں مہینہ کا نام شعبان المعظم ہے رجب اور رمضان کے درمیان شعبان کا مہینہ ہے اس مہینہ میں مرنے والوں کے نام زندوں کی فہرست سے نکال کر مردوں کی فہرست میں شامل کر دیئے جاتے ہیں۔ شعبان کی پندرھویں شب کو عبادت کرنا فضیلت کا باعث سمجھا جاتا ہے اس شب کو شب برات بھی کہا جاتا ہے اس شب کو اللہ تعالیٰ آسمان و دنیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے <ref>شاہ معین الدین احمد ندوی، تاریخ اسلام جلد (۲۰۱) ،  مکتبہ رحمانیہ اقر اسنٹر اردو بازار لاہور</ref>۔
== رمضان المبارک ==
اسلامی قمری سال کے نویں مہینے کا نام رمضان المبارک ہے۔ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں شب قدر یا لیلتہ القدر اسی ماہ ہوتی ہے قرآن اسی مہینہ میں حضور پر اتر نا شروع ہوا۔
== شوال المکرم ==
اسلامی سال کا دسوواں مہینہ ہے اس مہینہ میں عرب کے لوگ اپنی اونٹنیوں کو تیز دوڑاتے تھے۔ اس تیزی کے باعث بعض مرتبہ اونٹنیاں اپنی دم اُٹھالیا کرتی تھیں چنانچہ اس نسبت سے اس مہینہ کو شوال کا نام دیا گیا۔ شوال کے مہینے میں چھ  روزے رکھتے ہیں اور ثواب حاصل کرتے ہیں۔ یکم شوال کے دن روز دکھا کرہ تاریکی اور نا جائز سمجھا جاتا ہے اس لئے روزہ شوال کی دو تاریخ سے شروع کرتے ہیں۔ (۱۱) ذیقعدہ: اسلامی سال کا گیارہواں مہینہ ہے اس مہینے میں عرب جنگ کو
ترک کر دیتے تھے اور اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تھے۔
== ذی الحجہ ==
اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ہے تمام مہینوں کا سردار رمضان کا مہینہ اور تمام مہینوں میں حرمت والا مہینہ ذی الحجہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس مہینے کے دس دنوں کی فضیلت بہت زیادہ ہے اس ماہ سنت ابراہیمی ادا کی جاتی ہے۔ عید قربان ہوتی ہے حج ہوتا ہے ذی الحجہ کے آٹھویں دن حاجی مکہ مکرمہ کی طرف سے منی کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور آب زمزم خوب سیر ہو کر پیتے ہیں اس لئے اس دن کو یوم ترویہ بھی کہتے ہیں <ref>محمد الیاس عادل، بارہ مہینوں کی نفلی عبادت ، مشتاق بک کارنرالکریم مارکیٹ اردو بازارلا ہو</ref> ۔
'''آیت اللہ  سید محمد باقر رضویؒ باقر العلوم'''
'''حالات  زندگی'''
آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد باقر رضوی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے روز ولادت 7 صفر المظفر 1286 ہجری کو وزیر گنج لکھنو میں پیدا ہوئے۔ دادیہال اور نانیہال دونوں اعتبار سے آپ کا تعلق بر صغیر بلکہ عالم تشیع کے مشہور و معروف دینی اور علمی خانوادہ سے ہے۔ آپ کے دادا آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ، والد ماجد فقیہ احسن نادرۃ الزمن آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابّو رحمۃ اللہ علیہ تھے اور آپ کے نانا آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفران مآب رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے جنت مآب آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد تقی  قوی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ سرکار باقرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابّو رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ اسکے بعد فقہ و اصول کی مقدماتی تعلیم فقیہ اعظم مفتی سید محمد عباس موسوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردان رشید محقق کامل مولانا شیخ تفضل حسین طاب ثراہ فتح پوری اور عالم جلیل مولانا سید حیدر علی طاب ثراہ سے حاصل کی اور اپنے والد ماجد کے درس میں شامل ہوئے اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ جیسا کہ آپ کے والد ماجد نے بعض اکابرین سے فرمایا تھا کہ “الحمد للہ سید محمد باقر سلمہ درجہ اجتہاد پر فائز ہیں۔” درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور اکثر اسلامی علوم عربی ادب، فقہ، اصول، فلسفہ، منطق، حدیث، تفسیر اور درایت میں کامل تسلط کے باوجود جب تک نجف اشرف جا کر باب مدینۃ العلم کی بارگاہ میں کسب فیض نہیں کیا تب تک کسی کو اپنی تقلید کی اجازت نہیں دی۔1302 ہجری میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ نجف اشرف تشریف لے گئے لیکن عام طلاب کے برخلاف اپنی علمی استعداد کے سبب ابتدائی دروس کے بجائے  رس خارج میں شرکت کی <ref>مولانا سید علی ہاشم عابدی، آیت اللہ علامہ سید محمد باقر رضویؒ باقر العلوم</ref>۔
== اساتذہ ==
والد ماجد آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف آغا ابّو
مولانا شیخ تفضل حسین فتح پوری
مولانا سید حیدر علی لکھنوی
صاحب کفایۃ الاصول آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد کاظم خراسانی المعروف بہ آخوند خراسانی
آیۃ اللہ العظمیٰ مرزا خلیل تہرانی رحمۃ اللہ علیہ
صاحب (کتاب) عروۃ الوسقیٰ آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی رحمۃ اللہ علیہ
آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ شریعت فتح اللہ اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ
صاحب مستدرک الوسایل آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ میرزا حسین بن محمد تقی بن علی محمد نوری طبرسی المعروف بہ محدث نوری رحمۃ اللہ علیہ
آیۃ اللہ العظمیٰ محمد حسین شهرستانی۔
حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تقریبا 11 برس مذکورہ فقہاء و مجتہدین کے درس خارج میں شرکت کی اور ان سے سند اجتہاد حاصل کی۔ نجف اشرف میں قیام کے دوران ہی آپ کے والد ماجد نے 1312 ہجری کو کربلائے معلی میں رحلت فرمائی اور امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہوئے۔
باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ جب لکھنو آئے تو آپ کے والد کے مقلدین نے آپ کی جانب رجوع کیا۔ نیز ملک کی مشہور شیعہ دینی درس گاہ سلطان المدارس جو آپ کے والد مرحوم کی یادگار ہے اس کے مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔ آپ کے علم، زہد و تقویٰ کی شہرت ہوئی تو پورے ملک (ہند و پاک) سے علوم آل محمد علیہم السلام کے مشتاقان کا لکھنو آنے کا سلسلہ جاری ہو گیا۔
== شاگرد ==
آپ کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے سلطان المدارس میں آپ کی 30 سالہ دور تدریس میں کسب فیض کیا جو اپنے زمانے کے جید علماء میں شمار ہوتے تھے۔ ذیل میں ان میں سے چند کے اسمائے گرامی ملاحظہ فرمائیں:
سید شبیر حسین طاب ثراہ (سابق استاد وثیقہ عربی کالج فیض آباد)
آیۃ اللہ سید احمد علی موسوی
آیۃ اللہ سید ظفرالحسن
آیۃ اللہ سید راحت حسین گوپالپوری
شمس العلماء آیۃ اللہ سید سبط حسن نقوی
مولانا سید محمد رضا
مولانا سید عالم حسین طاب ثراہ (سابق استاد سلطان المدارس لکھنو)
مولانا سید کلب حسین نقوی طاب ثراہ (کبن صاحب)
سید العلماء مولانا سید علی نقی نقوی (نقن صاحب)
مولانا سید وصی محمد
آیۃ اللہ سید محمد رضوی  (فرزند سرکار باقر العلوم رہ)
مولانا ڈاکٹر سید مجتبیٰ حسن  کامونپوری۔
مولانا سید ابن حسن صاحب نونہروی
مولانا زین العابدین طاب ثراہ (ملتان)
مولانا سید حیدر حسین نکہت  (صدر الافاضل)
مولانا محسن نواب
مولانا سید نجم الحسن رضوی کراروی
مذکورہ اسمائے گرامی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب شاگردان ایسے جید علماء تھے تو استاد کس منزل پر ہوں گے۔ خدا رحمت نازل فرماے <ref>علمای ہند، آیت  اللہ محمد باقر رضوی، [https://ulamaehind.in/scholar/syed-mohammad-baqir-rizvi ulamaehind.in]</ref>۔
== سلطان المدارس ==
ملت جعفریہ کا عظیم سرمایہ سلطان المدارس ہے۔ آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابو رحمۃ اللہ علیہ نے 1892 عیسوی میں اس مدرسہ کی بنیاد رکھی اور تا حیات اس کی بقاء اور ارتقاء کے لئے کوشاں رہے۔ بانی مدرسہ کی رحلت کے بعد آپ کے فرزند باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ اس کے مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔انہوں نے بھی اپنے والد مرحوم کی طرح طلاب کی تعلیم و تربیت کے علاوہ مدرسہ کو نمایاں ترقی دی۔1892 عیسوی سے 1911 عیسوی تک تقریبا بیس برس مدرسہ سلطان المدارس کی اپنی کوئی عمارت نہیں تھی۔ ابتداء میں گول دروازہ چوک کے قریب کرائے کے مکانات میں، اس کے بعد آصفی مسجد کے حجروں میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا۔  باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے نمایاں کارناموں میں سے ایک میڈکل کالج کے سامنے مدرسہ سلطان المدارس کی ذاتی عمارت ہے جسمیں آج بھی مدرسہ قائم ہے۔
اسی طرح آپ نے کربلائے معلی عراق میں مدرسہ ایمانیہ کی بنیاد رکھی۔ اسی مدرسہ میں مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تعلیم حاصل کی۔اسی طرح آپ نے دوران سفر مشہد مقدس میں بھی ایک مدرسہ اور حسینیہ کی بنیاد رکھی۔
== تحریک تعمیر و تجدید مساجد ==
باقر العلوم رہ نے مساجد کی تعمیر و تجدید کی تحریک چلائی تا کہ مساجد آباد ہوں اور انمیں نماز جماعت کا سلسلہ جاری ہو۔ آپ نے بہت سی مساجد کی تجدید فرمائی۔ اسی طرح بہت سی مساجد آپ کے ذریعہ تعمیر ہوئیں جنمیں ردولی کے حسینیہ ارشاد حسین مرحوم کی مسجد آپ ہی کے حکم پر تعمیر ہوئی اور اس کا سنگ بنیاد 1925 عیسوی میں آپ ہی کے دست مبارک سے رکھا گیا۔
== حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے رابطہ ==
باقرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے مولا و آقا حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے خاص لگاو تھا۔ ظاہر ہے امام معصوم سے رابطہ یقین، ایمان و عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنی زندگی معصومین علیہم السلام کی سیرت و احادیث کی روشنی میں بسر کرے۔ اس کے سیرت و کردار سے معصومین علیہم السلام کے سیرت و کردار کی خوشبو آئے۔ سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا اخلاص، زہد و تقویٰ اس منزل پر تھا کہ آپ کو دیکھ کر لوگوں کو اہلبیت علیہم السلام کی یاد آتی تھی۔ آپ انتہائی درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے کہ ایک بار ناظم صاحب کے امام باڑے میں وعظ فرما رہے تھے کہ کسی سامع نے متاثر ہو کر کہا “کیا عالمانہ بیان ہے۔” کوئی اور ہوتا تو خوش ہو جاتا لیکن یہ سنتے ہی آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو گیا اور فرمایا: عالم صرف اہلبیت علیہم السلام ہیں۔
ظاہر ہے ایک فقیہ اعظم کا بیان اقوال معصومین علیہم السلام کا ائینہ دار ہوتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: لوگوں کی تین قسمیں ہیں۔ علماء، متعلمین اور غثاء (یعنی جو ہر ہوا پر حرکت کرے اور ہر آواز کے پیچھے چل پڑے) ہم (آل محمد علیہم السلام) علماء ہیں، ہمارے شیعہ متعلم ہیں اور باقی لوگ غثاء ہیں۔اسی طرح منقول ہے کہ ایک بار اہل سنت کے کچھ علماء سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے شریعت کدہ پر حاضر ہوئے، سلام و احوال پرسی کے بعد ان لوگوں نے کہا کہ آپ شیعوں کے یہاں جو امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ بھیجا جاتا ہے کافی مضحکہ خیز ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دریا میں عریضہ ڈالا جائے اور وہ ان تک پہنچ جائے۔ مچھلیاں کھا لیتی ہوں گی یا پانی میں گل جاتا ہوگا۔ آپ نے حکم دیا کہ شیشہ کے برتن میں پانی لایا جائے۔ جب وہ لایا گیا تو آپ نے ان لوگوں کے سامنے عریضہ لکھا اور شیشہ میں موجود پانی کے سپرد کر دیا اور مہمانوں سے محو گفتگو ہو گئے تھوڑی دیر بعد مہمانوں سے کہا کہ ابھی آپ کے سامنے ہی میں نے عریضہ لکھ کر اپنے مولا کی خدمت میں بھیجا۔ یہ برتن اور پانی آپ کے سامنے ہے بتائیے میرا عریضہ کہاں ہے؟ اب جو سب نے غور سے پانی میں دیکھا تو عریضہ کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اعتراض کرنے والے شرمندہ ہوئے۔ اس واقعہ میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے اگر آپ چاہتے تو عریضہ کے سلسلہ میں زبانی عقلی اور نقلی دلیلیں دے سکتے تھے لیکن آپ نے عملی نمونہ پیش کیا کہ جس کے بعد مشاہدہ کرنے والوں کے دل میں انکار تو بڑی بات شک بھی نہ پیدا ہو۔ لیکن یہ عملی نمونہ وہی پیش کر سکتا تھا اور پیش کر سکتا ہے جو نہ صرف زبان بلکہ اپنے عمل سے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے نزدیک ہو اور مستقل اپنے امام سے رابطے میں ہو۔
منقول ہے کہ کثرت مطالعہ کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا سینہ زخمی ہو گیا تھا اور مستقل درد رہتا تھا لیکن یہ درد آپ کو مطالعہ سے نہ روک سکا۔ آخر ایک دن امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا کرم ہوا اور درد کافور ہو گیا۔
== تالیفات ==
درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور مدرسہ سلطان المدارس کے جیسے دیگر انتظامی امور میں مصروفیات کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کو تصنیف و تالیف کے لئے وقت نکال پانا مشکل تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ آپ کی ہر تالیف اپنی مثال آپ ہے جنمیں سے چند کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
الافادات الباقریہ، مجالس باقریہ،
منہج الیقین و صحیفۃ المتقین،
المواعظ الباقریہ،
صوب الدیم النوافث،
القول المصون فی فسخ نکاح المجنون،
اجوبۃ المسائل (شرعی سوالات کے جوابات)،
اجوبۃ المسائل (فتاویٰ)،
الروضۃ الغناء فی عدم جواز استماع الغناء ،
سوال و جواب
اسداء الرغایب بکشف الحجاب عن وجہ السنۃ والکتاب،
تصحیح الاعمال،
رسالہ صومیہ اور
شہادت ولایت  ۔
اسکے علاوہ آپ کی کچھ کتابیں مفقود بھی ہو گئیں ہیں۔ باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ عظیم شاعر بھی تھے۔ آپ نے عربی زبان میں اشعار کہے ہیں۔ منقول ہے کہ سلطان المدارس لکھنو کے سابق استاد سبط حسن  نے ایک دن ناساز طبیعت کے سبب چھٹی کی درخواست بھیجی جو منظوم عربی زبان میں تھی۔  باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ نے منظوم عربی میں ہی درخواست کی منظوری تحریر فرمائی۔
== اولاد ==
اللہ نے آپ کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کی۔
آیۃ اللہ سید محمد رضوی  (سابق پرنسپل سلطان المدارس لکھنو)
حافظ نہج البلاغہ، مفسر صحیفہ سجادیہ آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ (سابق پرنسپل سلطان المدارس لکھنو)
مولانا سید رضی رضوی طاب ثراہ
بڑی بیٹی آیۃ اللہ العظمیٰ سید حسن رحمۃ اللہ علیہ (ساکن کربلائے معلی عراق) کی زوجہ تھیں۔
منجھلی بیٹی آیۃ اللہ سید حسین رحمۃ اللہ علیہ کی زوجہ تھیں۔
چھوٹی بیٹی آقائے شریعت حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید کلب عابد نقوی طاب ثراہ کی زوجہ اور آفتاب شریعت مولانا سید کلب جواد نقوی صاحب قبلہ امام جمعہ لکھنو کی والدہ گرامی تھیں۔
== غروب آفتاب ==
16 شعبان المعظم 1346 ہجری بروز جمعرات صبح دس بجے یہ آفتاب علم و عمل کربلائے معلی میں غروب ہو گیا۔ مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں قتل گاہ کے قریب دفن ہوئے۔
'''سید ذیشان حیدر جوادی''' سید ذیشان حیدر جوادی برصغیر کے مشہور شیعہ عالم دین اور مذہبی مصنف تھے، الہ آباد، ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔
'''سید ذیشان حیدر جوادی''' سید ذیشان حیدر جوادی برصغیر کے مشہور شیعہ عالم دین اور مذہبی مصنف تھے، الہ آباد، ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔
== پیدایش ==
== پیدایش ==
confirmed
۱٬۱۳۰

ویرایش