پرش به محتوا

کاربر:Saeedi/صفحه تمرین: تفاوت میان نسخه‌ها

جز (جایگزینی متن - '[[سید علی سیستانی' به '[[سید علی حسینی سیستانی')
خط ۱٬۷۷۶: خط ۱٬۷۷۶:
شیخ محسن کرد از تائید رب
شیخ محسن کرد از تائید رب
ترجمہ ہم حاشیہ قرآن رقم
ترجمہ ہم حاشیہ قرآن رقم
'''سر سید احمد خان''' احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل، مصلحغاور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
== سوانح عمری ==
1838ء میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 1867ء وہ چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیے گئے۔ 1876ء میں وہ ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار رہے اور یورپیوں کی جانیں بچانے میں اس کے کردار کی سلطنت برطانیہ کی طرف سے ستائش کی گئی بغاوت ختم ہونے کے بعد انہوں نے اسباب بغاوت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں ہندوستان کی رعایا کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا۔ اس رسالہ کا فائدہ سلطنت برطانیہ کو ہوا جس نے اس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے برصغیر کا تمام قبضہ لے لیا اور ہندوستان کے تمام معاملات براہ راست اپنے قبضہ میں لے لیے۔ مسلمانوں کے راسخ الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سرسید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی جو معتزلہ کے افکار کا چربہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا۔
== تعلیم ==
1859ء میں سر سید نے مرادآباد میں گلشن اسکول، 1863ء میں غازی پور میں وکٹوریہ اسکول اور 1864ء میں سائنسی سوسائٹی برائے مسلمانان قائم کی۔ 1875ء میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج جو جنوبی ایشیا میں پہلی مسلم یونیورسٹی بنا  اپنے کردار کے دوران میں سر سید نے بار بار مسلمانوں کو سلطنت برطانیہ سے وفاداری پر زور دیا اور تمام ہندوستانی مسلمانوں کو اردو کو بطور زبانِ رابطۂ عامہ اپنانے کی کوشش کی۔۔ وہ اپنی برطانوی وفاداریوں کے سبب انڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے گہری تنقید کا نشانہ بنا
سر سید کو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں میں ایک موثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اکثر دو قومی نظریہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور تاریخی بددیانتی کرتے ہوئے دوقومی نظریے کو سترہویں صدی کے غیر اہم کردار حضرت مجدد الف ثانی کے سرمنڈھ دیتے ہیں۔ جس کا کوئی ٹھوس علمی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ اثر اور متاثر کی اتنی نسبت ہے جتنی کہ سکندراعظم اور نپولین میں موجود ہوسکتی ہے۔ سر سید کی اسلام کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کے لیے عقلیت پسند (معتزلہ) روایت کی وکالت نے عالمی طور پر اسلامی اصلاح پسندی کو متاثر کیا اور ناقابل تلافی نقصان دیا  پاکستان میں کئی سرکاری عمارتوں اور جامعات اور تدریسی اداروں کے نام سر سید کے نام پر ہیں
confirmed
۱٬۱۳۰

ویرایش