پرش به محتوا

کاربر:Saeedi/صفحه تمرین: تفاوت میان نسخه‌ها

بدون خلاصۀ ویرایش
بدون خلاصۀ ویرایش
خط ۲٬۲۹۷: خط ۲٬۲۹۷:
== بالفور ڈیکلریشن ==
== بالفور ڈیکلریشن ==
1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ جے بالفور نے '''بالفور ڈیکلریشن''' پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ام کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔ 1992ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔ اس وقت تک صہیونی تنظیموں اور یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آ چکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔
1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ جے بالفور نے '''بالفور ڈیکلریشن''' پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ام کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔ 1992ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔ اس وقت تک صہیونی تنظیموں اور یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آ چکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔
************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
سید حسن نصر اللہ
== سوانح عمری ==
سید حسن نصر اللہ 1960ء میں جنوبی لبنان میں بیروت کے قریب ایک کیمپ میں ایک غریب خاندان کے گھر میں پیدا ہوا۔ آپ کے والد سید عبد الکریم پھیری لگا کر سبزی اور پھل فروخت کیا کرتے تھے۔ مالی حالت بہتر ہونے پر انہوں نے اپنے گھر کے قریب پھل اور سبزیوں کی ایک دکان کھول لی۔ ان کے والد نے دکان میں امام موسی صدر کی ایک تصویر آویزاں کر رکھی تھی۔ نصر اللہ فارغ وقت میں اپنے والد کا کاروبار میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ آپ دکان پر بیٹھنے کے دوران امام موسی صدر کی تصویر کو بڑے غور سے دیکھا کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا دھیان اس تصویر پر رہا کرتا تھا۔ سید نصر اللہ کے بقول تصویر کو دیکھنے کے دوران وہ خوابوں کی وادی میں اتر جایا کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ امام صدر کے نقش قدم پر چلیں۔
سید حسن بچپن سے ہی اپنے ہم عمر بچوں سے مختلف تھے۔ وہ عام بچوں کی طرح فٹ بال کھیلنے یا تیراکی میں کو‏ئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے بچپن کے زمانے میں قارطینہ میں کوئی مسجد نہیں تھی۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت نواحی علاقوں سن الفیل، باروج، حمود اور نابع کے علاقے میں موجود مساجد میں گزارتے تھے۔ اپنے خاندان کے باقی ارکان کے برعکس وہ انتہائی مذہبی نوجوان تھے۔ جب حسن کی عمر نو سال ہوئی تو بیروت کے شہر کے شہداء چوک میں سڑک کے فٹ پاتھوں پر ایرانی کتابوں کی دکانوں سے کتابیں خریدا کرتے تھے۔ ہر وہ کتاب پڑھنے کے شوقین تھے جو اسلام کے بارے میں ہو جب وہ ایک کتاب پڑھتے ہو‎‎ئے تھک جاتے تو اسے دوسری طرف رکھ کر نئ کتاب پڑھنا شروع کر دیتے۔ کتابیں پڑھتے پڑھتے یہ بچہ ایک خصوبصورت نوجوان میں تبدیل ہو گیا <ref>محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء،ص47</ref>۔
confirmed
۱٬۱۳۰

ویرایش