پرش به محتوا

کاربر:Saeedi/صفحه تمرین: تفاوت میان نسخه‌ها

بدون خلاصۀ ویرایش
خط ۱: خط ۱:
بلتستان چھوٹا تبت- پاکستان کا شمالی علاقہ جو دریائے سندھ، دریائے شیوک اور دریائے شگر کے دونوں جانب قریبا دو سو مربع میل کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔ دار الحکومت سکردو ہے۔ اس کے شمال میں سلسلہ قراقرم، جنوب میں وادی کشمیر، مشرق میں لداخ اور مغرب میں وادی گلگت ہے۔ اس علاقے میں دنیا کی بعض نہایت بلند چوٹیاں واقع ہیں مثلا کے ٹو، گشہ بروم اور مشہ بروم۔ ہنزہ و نگر اس کے شامل میں واقع ہیں۔
بلتستان چھوٹا تبت- پاکستان کا شمالی علاقہ جو دریائے سندھ، دریائے شیوک اور دریائے شگر کے دونوں جانب قریبا دو سو مربع میل کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔ دار الحکومت سکردو ہے۔ اس کے شمال میں سلسلہ قراقرم، جنوب میں وادی کشمیر، مشرق میں لداخ اور مغرب میں وادی گلگت ہے۔ اس علاقے میں دنیا کی بعض نہایت بلند چوٹیاں واقع ہیں مثلا کے ٹو، گشہ بروم اور مشہ بروم۔ ہنزہ و نگر اس کے شامل میں واقع ہیں۔
== مذہب ==
== مذہب ==
ڈیڑھ سال پہلے یہاں کے لوگ ہندو تھے۔ تیسری صدی عیسوی میں یہاں تبت کی طرف سے بدھ مبلغ آئے اور یہاں بدھ مت پھیل گیا۔ سکردو میں ایک چٹان پر کندہ بدھ کی تصویر آج تک موجود ہے۔ آٹھویں اور نویں صدی میں یہ علاقہ براہ راست تبت راجاؤں کے زیر نگین رہا اور یوں تبتی زبان یہاں رائج ہوئی۔ اگرچہ یہاں کے باشندوں نے اپنی قدیم بلتی زبان کو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔  
ڈیڑھ سال پہلے یہاں کے لوگ ہندو تھے۔ تیسری صدی عیسوی میں یہاں تبت کی طرف سے بدھ مبلغ آئے اور یہاں بدھ مت پھیل گیا۔ سکردو میں ایک چٹان پر کندہ بدھ کی تصویر آج تک موجود ہے۔ آٹھویں اور نویں صدی میں یہ علاقہ براہ راست تبت راجاؤں کے زیر نگین رہا اور یوں تبتی زبان یہاں رائج ہوئی۔ اگرچہ یہاں کے باشندوں نے اپنی قدیم بلتی زبان کو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ چار سو سال بعد  جب یہاں اسلام کا غلبہ ہوا تو بدھ ختم ہوا۔
1373ء میں شافعی (شیعہ) مسلک کے مشہور مبلغ شاہ ہمدان سید علی ہمدانی، چینی ترکستان سے شمالی دروں کے راستے اس علاقے میں داخل ہوئے۔ یہاں کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے انہوں نے علاقے میں بڑے بڑے بدھ لاماؤں سے مذہبی مباحثے اور مذاکرے کیے اور انہیں دین اسلام کی صداقت کا قائل کرلیا اور ان لاماؤں نے یکے بعد دیگرے اسلام قبول کرلیا۔ ان کے ساتھ ہی ان کے حلقہ اثر میں شامل عوام بھی مسلمان ہوگئے۔
سید علی ہمدانی نے بلتستان کے مختلف مقامات پر مساجد اور خانقاہیں تعمیر کیں۔ خپلو کی خانقاہ معلی آج بھی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ شمار کی جاتی ہے۔ کچھ عرصے کےبعد سید علی ہمدانی کے ایک خاص شاگرد سید محمد نور بخش تشریف لائے۔ انہوں نے سی اور شیعہ فرقوں میں اختلافات کم کرنے لیے ایک کتاب فقہ احوط لکھی مگر ان کے پیروکاروں نے انہی کے نام پر ایک نیا فرقہ کھڑا کردیا جسے مذہب نوربخشی کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد ایران میں شیعہ فرقے کا غلبہ ہوا۔ ایرانی مبغلین نے شیعیت کی تبلیغ شروع کردی۔ انہوں نے یہاں کے رؤسا اور راجاؤں کو شیعہ فرقے میں شامل کیا اور عوام بھی ان کے ساتھ شیعہ ہوتے چلے گئے۔  سنی عقیدے کے مسلمانوں میں یہ علاقہ زیادہ متعارف نہیں ہوا تھا۔ صرف بارہویں اور تیرہویں صدی ہجری میں چند اہل سنت مبلغ یہاں آئے۔ ان میں خاص طور پر پیر بابا پشاوری اور حضرت سلطان علی نمایاں ہیں۔ سیاسی حالات نے 1840ء میں کروٹ لی جب اس وقت کے راجا گلاب سنگھ ڈوگرا کے جرنیل زور آور سنگھ نے نے آخری حمکران احمد شاہ کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور بلتستان پر قبضہ کرلیا۔ بلتستان107سال تک کشمیر ڈوگرا حکمران راجا کرن سنگھ نے بلتستان کو جموں و کشمیر کے ساتھ انڈیا کے سپرد کر دیا  لیکن بلتستان اور گلگت کے عوام اور اسکاؤٹوں نے اس فیصلے کے خلاف بغاوت کردی اور فروری 1948ء میں پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیا۔ اس وقت سے ملکی وسائل کے نشو و ارتقا کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ 1951ء میں سکردو میں بجلی فراہم کی گئی۔ 1960ء میں اسلام آباد اور سکردو کے درمیان طیاروں کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے بعد پوری دنیا کے سیاح یہاں آنے لگے ہیں۔ نئے جدید بازار بن گئے ہیں۔ پورے علاقے میں یابوؤں کے ذریعے سے آمد و رفت کے راستے بنا دیے گئے۔ کئی سٹرکین تعمیر ہو گئیں۔
بلتستان میں چھوٹے بڑے 250 گاؤں ہیں۔ ہر گاؤں پینتیس چالیس گھروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ کل آبادی سات لاکھ کے قریب ہیں۔ سب لوگ ایک خاندان کی طرح مل جل کر رہتے ہیں۔ دھلی ہوئی گندم خشک کرکے بھون لیتے ہیں اور بھٹی ہوئی گندم برتنوں میں بھر کر محفوظ کرلیتے ہیں۔ خوبانیان، ٹماٹر، سبزیاں، شلغم وغیرہ صاف کرکے اورکاٹ کر خشک کر لیتے  ہیں۔ یہی خشک محفوظ غذا برف باری کے موسم میں کام آتی ہے۔ بھنے ہوئے گندم کشمش اور خوبانی کی گٹھلی سے نکلنے والی گری کے ساتھ ملا کر کھائے جاتے ہیں۔ ان کو پیس کر ستو کی طرح بھی استعمال کیا جاتا ہے <ref>سید قاسم محمود، انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا، الفیصل ناشران و تاجران کتب اردو بازار لاہور، 2008ء،ص 297-298</ref>۔
{{جعبه اطلاعات شخصیت
{{جعبه اطلاعات شخصیت
| عنوان = سید ساجد علی نقوی  
| عنوان = سید ساجد علی نقوی  
خط ۲۲: خط ۲۵:


'''سید ساجد علی نقوی''' رهبر کنونی شیعیان [[پاکستان]] و نماینده ولی فقیه و عضو شورای عالی [[مجمع جهانی اهل بیت|مجمع جهانی اهل بیت(ع)]] می باشد. او بعد از شهید عارف حسینی از جانب مرحوم [[سید روح الله موسوی خمینی|امام خمینی]] و بعد از وی از جانب رهبر انقلاب [[سید علی حسینی خامنه‌ای|سید علی خامنه ای]] به سمت نمایندگی ولی فقیه در کشور پاکستان منصوب گردید. ساجد علی نقوی یکی از منادیان [[وحدت اسلامی]] در [[جهان اسلام]] و پاکستان شناخته می شود و نام وی در فهرست ۵۰۰ شخصیت تأثیرگذار [[مسلمان]] دنیا قرار دارد. وی دانش آموخته حوزه های علمیه [[قم]] و [[نجف]] است. و از این دو حوزه کسب فیض نموده است. سید ساجد علی نقوی بعد از [[شهید|شهادت]] [[سید عارف حسین الحسینی]] رهبری شیعیان این کشور را به دست گرفت. وی در زمینه های آموزشی،‌ فرهنگی،‌ اجتماعی و سیاسی فعالیت های زیادی داشته است. سید ساجد علی نقوی توانسته است که نهادهای زیادی برای ایجاد وحدت بین [[مسلمان|مسلمانان]] به ویژه بین مسلمانان پاکستان به وجود بیاورد.
'''سید ساجد علی نقوی''' رهبر کنونی شیعیان [[پاکستان]] و نماینده ولی فقیه و عضو شورای عالی [[مجمع جهانی اهل بیت|مجمع جهانی اهل بیت(ع)]] می باشد. او بعد از شهید عارف حسینی از جانب مرحوم [[سید روح الله موسوی خمینی|امام خمینی]] و بعد از وی از جانب رهبر انقلاب [[سید علی حسینی خامنه‌ای|سید علی خامنه ای]] به سمت نمایندگی ولی فقیه در کشور پاکستان منصوب گردید. ساجد علی نقوی یکی از منادیان [[وحدت اسلامی]] در [[جهان اسلام]] و پاکستان شناخته می شود و نام وی در فهرست ۵۰۰ شخصیت تأثیرگذار [[مسلمان]] دنیا قرار دارد. وی دانش آموخته حوزه های علمیه [[قم]] و [[نجف]] است. و از این دو حوزه کسب فیض نموده است. سید ساجد علی نقوی بعد از [[شهید|شهادت]] [[سید عارف حسین الحسینی]] رهبری شیعیان این کشور را به دست گرفت. وی در زمینه های آموزشی،‌ فرهنگی،‌ اجتماعی و سیاسی فعالیت های زیادی داشته است. سید ساجد علی نقوی توانسته است که نهادهای زیادی برای ایجاد وحدت بین [[مسلمان|مسلمانان]] به ویژه بین مسلمانان پاکستان به وجود بیاورد.
 
==زندگی نامه==
==زندگی نامه==
سید ساجد علی نقوی در یکم ژوئن سال ۱۹۴۰میلادی در ملهو والی از توابع اَتَک ایالت پنجاب [[پاکستان]] به دنیا آمد.<ref>نقوی، تذکره علمای،‌۱۳۷۰ش، ص۸۴.</ref>
سید ساجد علی نقوی در یکم ژوئن سال ۱۹۴۰میلادی در ملهو والی از توابع اَتَک ایالت پنجاب [[پاکستان]] به دنیا آمد.<ref>نقوی، تذکره علمای،‌۱۳۷۰ش، ص۸۴.</ref>
confirmed
۱٬۱۳۰

ویرایش