پرش به محتوا

کاربر:Saeedi/صفحه تمرین: تفاوت میان نسخه‌ها

۳۸٬۴۸۹ بایت اضافه‌شده ،  ‏۱۸ دسامبر ۲۰۲۳
بدون خلاصۀ ویرایش
بدون خلاصۀ ویرایش
خط ۱: خط ۱:
اسماعیلیہ : اسماعیلیہ خالصہ یعنی وہ جماعت جو امام اسماعیل کی حیات وغیبت کی مقر
اور ان کی واپسی کی متوقع تھی۔
دوسری جماعت : مبارکیہ کے نام سے موسوم ہوئی یہ اسما عیلیہ فرقہ کی سب سے قدیم فروع معلوم ہوتی ہے ان کے نزدیک امام اسماعیل کے بعد محمد بن اسماعیل امام ہیں اور محمد کو یہ لوگ خاتمہ الائمہ جانتے ہیں اور کہتے ہیں وہی قائم منتظر اور مہدی موعود ہیں۔ مبارکیہ منسوب ہیں مبارک کی طرف اور وہ محمد بن اسماعیل بن امام جعفر صادق
کا غلام تھا اور خوشنویسی اور نقش و نگار اور دستکاری میں کمال حاصل تھا۔ اس غلام مبارک نے امام اسماعیل کی وفات کے بعد کوفے میں شیعہ کو مذہب اسماعیلیہ کی ترغیب دی اور اپنے پیروکاروں کا نام مبارکیہ رکھا بعض اس فرقے کو قرامطہ بھی کہتے ہیں اس لئے کہ مبارک کا لقب قرمط تھا۔ ابن خلکان کی ایک روایت (۲۷۲) اردو ترجمہ مہدی کے مطابق اس طرح ترتیب آئے گی ۔ امام جعفر صادق، امام اسماعیل
امام محمد (المکتوم ) عبدالله (الرضی ) احمد (الوفی ) الحسین (النقی ) عبد الله (المهدی) تیسری جماعت : شہرت واثر کے اعتبار سے تیسری جماعت کو سبقت حاصل ہے جو قرامطہ کے نام سے معروف ہوئی بعض لوگ قرامطہ کو اسما عیلیہ کا مترادف خیال
کرتے ہیں۔
قرامطہ لفظ جمع کا صیغہ ہے اس کا واحد قرمطی ہے جو قرمط کا اسم منسوب ہے کہا جاتا ہے قرمط لقب ہے حمدان بن اشعت کا جس نے اس فرقے کی بنیاد ڈالی قرمط کے عربی زبان میں معنی نزد یک نزد یک قدم ڈال کر چلنے کے ہیں۔ حضرت علی کے بعد امامت درجہ بہ درجہ منتقل ہو کر امام جعفر صادق کے حصہ میں آئی ان کے بعد ان  کے بیٹے امام اسماعیل میں آگئی ۔ قرامطہ دنیا کو بارہ جزیروں میں تقسیم کرتے ہیں ہر ایک جزیرہ میں ایک حجت کی موجودگی لازمی ہے ۔ جس کو نائب امام تصور کرتے ہیں حجت کا نائب داعی اور داعی کا نائب (ید ) ہوتا ہے۔ حجت بمنزلہ باپ دائی بمنزلہ ماں اور ید بمنزلہ بیٹا کے ہیں۔ قرامطہ کے چار درجے ہیں امام، حجت ، داعی اور یک ۔ قرامطہ کا قول تھا کہ حضور کے بعد صرف سات ائمہ ہوئے ہیں حضرت علی سے امام جعفر صادق تک اور ساتویں امام محمد بن اسماعیل بن جعفر ہیں محمد بن اسماعیل مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں ( قائم اور مہدی وہی ہیں ) اور ان کو رسالت کا مرتبہ بھی ۔
حاصل ہے۔
خطابیہ: شیعہ فرقوں میں وقتا فوقتا امامت کے تعین سے اختلاف ہوتا گیا جو اپنا جدا گانہ مسلک اختیار کر لیتے تھے اس طرح اسماعیلیہ میں خطابیہ کے باقیات بھی شامل ہو گئے چونکہ خطابیہ فرقہ نے ایک مخصوص عقائد اور ایک نہایت موثر طریقہ کار اپنا لیا تھا اس طرح خطابیہ کی شمولیت اسماعیلیہ فرقہ کی تقویت کا سبب ہوگئی ۔ خطابیہ اور اسماعیلیہ کے روابط کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابومحمد حسن بن موسیٰ نوبختی جو تیسری صدی کے ایک معتبر شیعہ مصنف تھے ایک کتاب فرق الشیعہ میں اسماعیلیہ اور خطابیہ کو باہم متحد قرار دیا ہے اس طرح خطابیہ کا ایک فرقہ محمد بن اسماعیل کے فرقہ میں داخل ہو گیا خطابیہ اور معیلیہ کی آمیزش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیا فرقہ بنا جو بعد
میں اسماعیلیہ کے نام سے موسوم ہوا۔
خطابیہ فرقے کے بانی ابو الخطاب محمد بن ابی زینب الاسدی ہے بعض کا عقیدہ یہ تھا کہ سید نا جعفر صادق کی روح ابوالخطاب میں حلول ہوگئی تھی اور ابوالخطاب کے بعد وہی روح محمد بن اسماعیل اور ان کی اولا د میں حلول کرگئی ۔ ( ابوانتخاب کے رقے کو خطابیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ابو الخطاب کو خطابیہ کہا گیا ہے ) ۔ خطابیہ کہتے ہیں کہ النبیت نور ہے عالم نبوت اور امامت ان انوار سے کبھی خالی نہیں رہتا۔ خطابیہ ہر مومن کی گواہی کو حلف کر کے سچا جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مومن کبھی جھوٹا حلف نہیں کرتا ۔ بعض اشخاص جو اس نواع کے عقائد رکھتے تھے اس فرقے سے علیحدہ ہو گئے اور ایک نیا فرقہ قائم کیا اسی فرقے کو قرامطہ کہتے ہیں۔ ابوالخطاب کو بعض مورخین نے قرامطہ کے معتقدین میں شمار کیا ہے ان کے اقوال و تصانیف قرامطہ اور اسماعیلیہ میں عام طور پر رائج تھیں ان کو بعض شیعہ فرقے مستند خیال کرتے تھے شیعہ محدثین نے ان کی بعض روایات اس سے نقل کی ہیں لیکن سنی
محد ثین اس کو ساقطہ الاعتبار قرار دیتے ہیں۔
باطنیہ فرقہ : باطنی شیعہ کا شمار غالی شیعوں میں ہوتا ہے غالی شیعہ کے اٹھارہ فرقے ہیں۔ سب سے پہلا فرقہ سبائی ہے ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی نہ مرے نہ قتل ہوئے بلکہ اُن کا ہم شکل دوسرا شخص قتل ہوا ۔ سبائی اور باطنی مذہب میں قرامطہ نصیریه، در از باببه ، بہائیہ، کاملیہ، خطابیہ، آغا خانی اور اسماعیلیہ فرقے اور مذہب بھی پیدا ہوئے ۔ ان فرقوں میں وحدت الوجود الاتحاد ہے اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ واحد کسی مخلوق رسول یا ولی اللہ کے اندر حلول کرتا ہے یعنی کہ اللہ انسانی شکل میں اوتار لیتا ہے۔ وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ساری چیزیں مثلاً پہاڑ دریا
سمندر اور حیوانات سب کے سب اللہ ہیں۔
اسماعیلی فرقہ میں امامت : اسماعیلی شیعہ فرقہ کی ایک شاخ ہے اور امام جعفر صادق کے بیٹے امام اسماعیل کی طرف منسوب ہے۔ امام جعفر صادق تک اثنا عشری اور اسماعیلی دونوں متحد ہیں ۔ ان کے بعد اثنا عشری اور اسماعیلی فرقے الگ ہو جاتے ہیں امام جعفر صادق کے دو صاحبزادے۔ (1) بڑے بیٹے کا نام اسماعیل (۲) چھوٹے بیٹے کا نام موسیٰ کاظم اسماعیل اپنے باپ امام جعفر صادق کے جانشین تھے لیکن امام اسماعیل کا انتقال امام جعفر صادق کی زندگی میں ہو گیا تھا۔ شیعوں کے نزدیک چونکہ امامت منجانب اللہ کے ہے اس لیئے اسماعیلی فرقہ کے لوگ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اگر کسی امام کی نامزدگی ہو جائے اُس کے بعد اخراج نہیں ہوتا اس لئے اسماعیلی فرقہ اسماعیل ہی کو امام مانتے ہیں۔ لیکن اثنا عشری کے نزدیک چونکہ اسماعیل مر گیا ہے اور جو مر گیا ہے وہ امام نہیں ہو سکتا۔ اسماعیلی اس بات کے قائل ہیں کہ امام اسماعیل نے وفات نہیں پائی بلکہ روپوش ہو گئے ہیں امام اسماعیل کو زندہ مانتے ہیں اور آغا خان روحانی پیشوا ) اُن کی شاخ کے حاضر امام ہیں اسماعیلی فرقہ اثنا عشری اماموں میں
صرف پہلے چھ اماموں کے قائل ہیں ۔ شش امامیه : (۱) حضرت علی (۲۴) امام حسن (۳) امام حسین (۴) امام زین
العابدین (۵) امام باقر (۶) امام جعفر صادق (۷) امام اسماعیل ۔ دوسرے شیعہ اثنا عشری امام حسن عسکری کے بیٹے ( امام محمد مہدی ) تک یہ فرقہ
امامیہ ، اثناعشری یا صرف شیعہ کے نام سے معروف ہے۔ لیکن اسماعیلی اثنا عشری نہیں ہیں اس فرقے کے نزدیک ہر ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے اس لئے اس فرقے کو باطنی شیعہ بھی کہتے ہیں۔ باطنی شیعہ کہتے ہیں کہ کتاب وسنت میں وضو تمیم ، نماز ،روزہ ، زکوۃ، حج، بهشت ، دوزخ اور قیامت وغیرہ کی نسبت جو کچھ وارد ہوا ہے دو ظاہر پر محمول نہیں سب کے اور ہی معنی ہیں اور جو معنی لغت مفہوم میں ہیں وہ شارع کے مراد نہیں مثلا حج سے مراد امام کے پاس پہنچنا ہے اور روزہ سے مذہب کا مخفی رکھنا
اور نماز سے مراد امام کی فرمانبرداری وغیرہ ہیں۔
اسماعیلیہ کا نظریہ ہے کہ امام اسماعیل موت کے بعد دُنیا میں لوٹ آنے کے قائل ہیں۔ اسماعیلیہ کا قول ہے کہ ایک جز والٰہی نے ائمہ میں حلول کیا حضرت علی بن ابی
طالب مستحق امام ہیں۔
اسما عیلیہ کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر ومختار نہیں ہے وہ جب کسی چیز کو پسند کرتا ہے تو وہ اُس سے بے اختیار موجود ہو جاتی ہے جیسے سورج کی شعاع بے اختیار
نکلنے لگتی ہے۔
(1) اسماعیلیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ نہ اللہ تعالیٰ صاحب ارادہ ہے بلکہ جو کچھ اُس سے صادر ہوتا ہے وہ اُس کی ذات کو لازم ہے جیسے آگ کی گرمی اور آفتاب کی روشنی ۔ ( ۲) اسماعیلیہ کے نزدیک آئمہ میں عصمت کا ہونا شرط ہے۔ یہی نظریہ امامیہ فرقے کا
بھی ہے ۔ اسماعیلیہ کا اماموں کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ عالم کبھی امام سے خالی نہیں ہوتا اور نہ ہو گا جو کوئی امام ہو گا اُس کا باپ بھی امام رہا ہوگا اور پھر اس کے باپ کا باپ اور یہ سلسلہ حضرت آدم تک جاتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ازل تک کیونکہ وہ
عالم کو قدیم مانتے ہیں اس طرح امام کا بیٹا امام ہوگا اور خُدا کو امام سے پہچانا جاتا ہے اور بغیر امام کے خداشناسی حاصل نہیں ہوتی پیغمبروں نے ہر زمانہ میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے شریعت کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن اصل باطن یہی ہے۔
ایمیل امام اسماعیل و اولوالعز بھی کہتے ہیں اسماعیلیہ عقیدہ کے مطابق سات اشخاص اولو العزم کا مرتبہ رکھتے ہیں ۔ ( اولو العزم کا مطلب ہمت و صبر والے ) اس میں حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ، حضرت عیسی ، حضرت محمد ، حضرت علی اور محمد بن اسماعیل ہیں اسماعیلیہ کو سبیعہ بھی کہتے ہیں اور یہ نام اس فرقے کے عقیدے کی وجہ سے پڑا۔ کیونکہ ان کے نزدیک انبیاء شریعت پہنچانے والے
صرف سات اشخاص ہیں۔ اسماعیلی فرقے کے بانی : عام طور پر اسماعیلی مصر کے فاطمی خلفاء کو اپنا سیاسی اور . مذہبی سرگردہ مانتے تھے۔ اسماعیلی فرقوں کا اختلاف ان کے خلفاء کی جانشینی پر ہوا اسماعیلی فرقے کے خلیفہ مولانا الامام المستنصر با اللہ علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ایک کا نام نزار تھا اور دوسرے کا نام مستعلی تھا خلیفہ کی وفات کے بعد ان دونوں میں جانشینی پر جھگڑا ہوا۔ فدائیان قلعہ الموت ایران سب نزار کے طرفدار تھے اور اہل یمن سب مستعلی کے طرفدار تھے۔ اس طرح خلیفہ مستنصر کے دونوں بیٹوں کے ماننے
والوں کے دو فرقوں کا آغاز ہوا ۔ مستعلویہ اور نزاریہ۔
(1) مستعلویہ سے جو فرقہ چلا وہ مستعلی کہلائے بوہرے خلیفہ مستنصر کے چھوٹے بیٹے مستعلی کی جانشینی کے قائل ہیں۔ اپنا امام مانتے ہیں اور اپنا سلسلہ ان سے چلاتے ہیں اور اسماعیلی آغا خانی فرقے کی نفی کرتے ہیں اور آغا خان کی امامت کے منکر ہیں۔ مصر اور یمن کے اسماعیلی مستعلی کی امامت کے قائل ہیں اور قدیم مذہبی روایات کے پابند ہیں بوھروں کے ہاں یمن بہت مبارک بقیہ سمجھا جاتا ہے۔ خوجے بوہروں اور عام مسلمانوں کے عقائد و عبادات میں وہ اختلاف جو عام اسماعیلیوں کو فرقہ خــودم, [۲۳.۱۱.۲۳ ۱۲:۵۸]
368
اہل سنت سے ہے۔ (۲) نزاریہ سے جو فرقہ چلا اُس کی ترجمانی ( آغا خانی ) خوجے کرتے ہیں ۔ حسن بن صباح: اسماعیلیہ جماعت میں دو شخصوں نے بطور صاحب جریدہ کے نام پیدا کیا ہے ان میں سے ایک کا نام سید نا حکیم ناصر خسرو ( قدس اللہ سر ہ ) اور دوسرے حسن بن صباح ۔ ہزاری عام طور پر خوجے کہلاتے ہیں نزاریہ کے سب سے بڑے داعی حسن بن صباح ہے جس کا پورا نام حسن بن علی بن محمد بن جعفر بن ج حسین بن الصباح الحمیری تھا۔ حسن بن صباح ایرانی مشخص جو شہر طوس میں رہتا تھا اپنا سلسلہ نسب قدیم عربی نژاد نامور صباح حمیر سے ملاتے ہیں اسماعیلیوں کے بڑے داعی حسن بن صباح نے سید نا حکیم ناصر خسرو کے زیر اثر خلیفہ مستنصر کی بیعت لی اور وہ نزار کی امامت کی تبلیغ کرتے تھے کہ خلیفہ مستنصر کے بعد نزار امامت کا حقیقی مالک ہے ایران میں حسن بن صباح نے دعوت نزار یہ پھیلانی شروع کی جس کا اثر تقریبا ڈیڑھ سو سال
باقی رہا اس فرقے کے لوگ اب بھی موجود ہیں ۔
حسن بن صباح نے مشہور قلعہ الموت ( ایران کے نزدیک ایک نہایت دشوار
گزار اور تقریبا نا قابل تسخیر پہاڑی قلعہ ہے جس کو الموت یعنی آشیانہ عقاب کہا جاتا ہے ) پر قبضہ کیا اور اپنے ماننے والوں کو ایسی تعلیم دی کہ وہ سب ان کے ادنی اشارے پر اپنی جان فدا کرتے تھے اس وجہ سے ان کو فدائی بھی کہتے ہیں۔ حسن بن صباح نے اسماعیلی مذہب کو نئے سرے سے ترتیب دیا تبلیغ کے نئے اصول وضع کئے اور اس نے ظاہری عبادت کی جگہ باطنی عبادت کو فرض کیا۔ آغا خان کا خاندانی پس م منظر نہ تو نزار سے چلا ہے نہ مستعلی سے لیکن پھر بھی آغا خانی نزاری کہلاتے ہیں ۔
خــودم, [۲۳.۱۱.۲۳ ۱۲:۵۸]
369
قاضی نعمان: اہل سنت والجماعت کے نامور امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ہیں فاطمی مذہب میں قاضی نعمان دوسرے ہیں ، نسب نامہ ابو عبد اللہ نعمان بن محمد بن منصور بن احمد بن حيون اتمي الاسماعیل المغربی ہیں۔ جن کی کنیت ” ابوحنیفہ ہے فقہ حنفی کے امام ابو حنفیہ کی کنیت سے التباس کے ازالہ کے لئے مورخین اور محققین آپ کو آپ کے پڑ دادا حیون کی نسبت ابن حیون کہ کرممتاز کرتے ہیں۔ مورخین اور محققین کا آپس میں اختلاف ہے بعض ان کا مالکی مسلک بتاتے ہیں۔ بعض حلقے ان کو پیدائشی اسماعیلی خیال کرتے ہیں قاضی نعمان نے چار فاطمی خلفائے کے دور کو نہایت قریب سے دیکھا ہے پہلے خلیفہ مہدی کی حکمرانی کے ایام میں آپ نے ماتحت رہ کرنو برس تک خدمت کی اس کے بعد خلیفہ قائم بامر اللہ تیسرے خلیفہ منصور الفاطمی چوتھے مغر لدین اللہ کے دور میں عروج و کمال کی بلندیوں کو چھونے لگے۔ قاضی نعمان
فاطمی اسماعیلی فقہ کے موئس اول فاطمی کتب کے مصنف اول۔ جامعہ میں پہلے پڑھائی جانے والی کتاب الاقتصار تھی برحال فاطمی کتب ،
تاریخ مصر اور تواریخ قضاة مصر کے مطالعہ سے ثابت ہے قاضی نعمان کے بیٹے ابوالحسن علی بن نعمان جامعہ کے پہلے شیخ اور متولی تھے۔ قاضی نعمان کی مغرب میں امام عبداللہ المہدی سے ملاقات ثابت ہے اور انہی امام مہدی نے اپنی حکومت ۲۹۶ھ میں
تشکیل دی تھی قاضی نعمان کی وفات ۳۶۲ھ میں ہوئی۔
قاضی نعمان جو عہد فاطمی کے بڑے مستند قدیم المثال فقیہ کے عالم گزرے ہیں۔ جس نے فقہ ، حدیث ، تاریخ، تاویل، عقائد ، مناظرہ، وغیرہ میں کہتا ہیں لکھیں۔ ان تصنیفوں کی تعداد چوالیس بتائی جاتی ہے جن میں سے تقریبا بائیں
خــودم, [۲۳.۱۱.۲۳ ۱۲:۵۸]
368
اہل سنت سے ہے۔ (۲) نزاریہ سے جو فرقہ چلا اُس کی ترجمانی ( آغا خانی ) خوجے کرتے ہیں ۔ حسن بن صباح: اسماعیلیہ جماعت میں دو شخصوں نے بطور صاحب جریدہ کے نام پیدا کیا ہے ان میں سے ایک کا نام سید نا حکیم ناصر خسرو ( قدس اللہ سر ہ ) اور دوسرے حسن بن صباح ۔ ہزاری عام طور پر خوجے کہلاتے ہیں نزاریہ کے سب سے بڑے داعی حسن بن صباح ہے جس کا پورا نام حسن بن علی بن محمد بن جعفر بن ج حسین بن الصباح الحمیری تھا۔ حسن بن صباح ایرانی مشخص جو شہر طوس میں رہتا تھا اپنا سلسلہ نسب قدیم عربی نژاد نامور صباح حمیر سے ملاتے ہیں اسماعیلیوں کے بڑے داعی حسن بن صباح نے سید نا حکیم ناصر خسرو کے زیر اثر خلیفہ مستنصر کی بیعت لی اور وہ نزار کی امامت کی تبلیغ کرتے تھے کہ خلیفہ مستنصر کے بعد نزار امامت کا حقیقی مالک ہے ایران میں حسن بن صباح نے دعوت نزار یہ پھیلانی شروع کی جس کا اثر تقریبا ڈیڑھ سو سال
باقی رہا اس فرقے کے لوگ اب بھی موجود ہیں ۔
حسن بن صباح نے مشہور قلعہ الموت ( ایران کے نزدیک ایک نہایت دشوار
گزار اور تقریبا نا قابل تسخیر پہاڑی قلعہ ہے جس کو الموت یعنی آشیانہ عقاب کہا جاتا ہے ) پر قبضہ کیا اور اپنے ماننے والوں کو ایسی تعلیم دی کہ وہ سب ان کے ادنی اشارے پر اپنی جان فدا کرتے تھے اس وجہ سے ان کو فدائی بھی کہتے ہیں۔ حسن بن صباح نے اسماعیلی مذہب کو نئے سرے سے ترتیب دیا تبلیغ کے نئے اصول وضع کئے اور اس نے ظاہری عبادت کی جگہ باطنی عبادت کو فرض کیا۔ آغا خان کا خاندانی پس م منظر نہ تو نزار سے چلا ہے نہ مستعلی سے لیکن پھر بھی آغا خانی نزاری کہلاتے ہیں ۔
خــودم, [۲۳.۱۱.۲۳ ۱۲:۵۸]
370
کتابیں اسماعیلیوں کے خزانوں ( کتب خانوں ) میں موجود ہیں ۔ ( نوٹ اسماعیل کتب خانہ میں جو مذہبی کتابیں جمع کرتے ہیں اُن کو خزانہ کہتے ہیں۔ یعنی اسماعیلی دعوت کی کتابوں کا خزانہ ) قاضی نعمان کی کتابوں میں اہم فقہی کارنامہ دُعائم اسلام ہے جو اب تلک اسماعیلی عقائد اور فقہ کی ایک مستند کتاب جسے سند کا درج حاصل ہے۔ اس کتاب میں قرآن کو بحیثیت متن اور احادیث و سنت کو بحیثیت شرح پیش کیا گیا ہے جس میں عبادات معاملات کا مکمل نقشہ مرتب ہو جاتا ہے۔ ان ابواب میں ولایتہ ، طہارۃ ، صلوۃ ، زکوۃ ، صوم، حج ، جہاد، ہیبوع ، موادیث ، نکاح، طلاق وغیرہ کا ذکر ہے۔ اس فقہ کی دوسری تصنیف ” الایضاح “ ہے جس میں دو سو میں کرتا میں شامل ہیں ان کتابوں کے مصنف قاضی نعمان ابو حنیفہ النعمات بن محمد الیمی ہیں جو فاطمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے متعدد قلمی نسخے موجود ہیں مگر پوری کتاب تا حال شائع نہیں ہوئی اس کتاب میں سے الحاد اور المقدمات کو جناب آصف لتمر
بن علی اصغر فیضی نے ۱۹۵۱ء میں مصر میں چھپوا کر شائع کیا۔
(1) دعائم الاسلام : جس کے دوجز ہیں اس میں فقہ کے احکام اور امامت پر بحث اور شرعی احکام لکھے ہیں ان کی تاویل ایک علیحدہ کتاب میں بیان کی ہے جس کا نام
تاویل دعائم الاسلام ہے۔
(۲) تاویل دعائم الاسلام : ( دو جز و) فقہ کے احکام کی تاویلیں اسما عیلی دعوت کا نظم و نسق ۔ اس کتاب کا مکمل نام جو متن سے ظاہر ہے اس کتاب میں بیان شدہ احکامات اور فرائض کی باطنی تاویلات کا بیان ہے یہ کتاب اسماعیلی تاویلات کی اہم
ترین بنیاد ہے خــودم, [۲۳.۱۱.۲۳ ۱۲:۵۸]
368
اہل سنت سے ہے۔ (۲) نزاریہ سے جو فرقہ چلا اُس کی ترجمانی ( آغا خانی ) خوجے کرتے ہیں ۔ حسن بن صباح: اسماعیلیہ جماعت میں دو شخصوں نے بطور صاحب جریدہ کے نام پیدا کیا ہے ان میں سے ایک کا نام سید نا حکیم ناصر خسرو ( قدس اللہ سر ہ ) اور دوسرے حسن بن صباح ۔ ہزاری عام طور پر خوجے کہلاتے ہیں نزاریہ کے سب سے بڑے داعی حسن بن صباح ہے جس کا پورا نام حسن بن علی بن محمد بن جعفر بن ج حسین بن الصباح الحمیری تھا۔ حسن بن صباح ایرانی مشخص جو شہر طوس میں رہتا تھا اپنا سلسلہ نسب قدیم عربی نژاد نامور صباح حمیر سے ملاتے ہیں اسماعیلیوں کے بڑے داعی حسن بن صباح نے سید نا حکیم ناصر خسرو کے زیر اثر خلیفہ مستنصر کی بیعت لی اور وہ نزار کی امامت کی تبلیغ کرتے تھے کہ خلیفہ مستنصر کے بعد نزار امامت کا حقیقی مالک ہے ایران میں حسن بن صباح نے دعوت نزار یہ پھیلانی شروع کی جس کا اثر تقریبا ڈیڑھ سو سال
باقی رہا اس فرقے کے لوگ اب بھی موجود ہیں ۔
حسن بن صباح نے مشہور قلعہ الموت ( ایران کے نزدیک ایک نہایت دشوار
گزار اور تقریبا نا قابل تسخیر پہاڑی قلعہ ہے جس کو الموت یعنی آشیانہ عقاب کہا جاتا ہے ) پر قبضہ کیا اور اپنے ماننے والوں کو ایسی تعلیم دی کہ وہ سب ان کے ادنی اشارے پر اپنی جان فدا کرتے تھے اس وجہ سے ان کو فدائی بھی کہتے ہیں۔ حسن بن صباح نے اسماعیلی مذہب کو نئے سرے سے ترتیب دیا تبلیغ کے نئے اصول وضع کئے اور اس نے ظاہری عبادت کی جگہ باطنی عبادت کو فرض کیا۔ آغا خان کا خاندانی پس م منظر نہ تو نزار سے چلا ہے نہ مستعلی سے لیکن پھر بھی آغا خانی نزاری کہلاتے ہیں ۔
خــودم, [۲۳.۱۱.۲۳ ۱۲:۵۸]
371
اساس ( اساس سے مراد حضرت علی ہیں ) اساس التاویل ، تاویل کے اصول اختلاف اصول المذاہب ۔ اسماعیلی مذہب کے اصول کا مقابلہ دوسرے
ب کے اصول سے ۔ افتتاح الدعوة وابتداء الدولته " ، قاضی نعمان بن محمد نے اس کتاب میں ظہور
= 5 مہدی اور ابتدائی فتوحات کے متعلق ہے۔ شرح الا اخبار ، فی فضائل الائمہ الاظہار۔ اس کتاب کے آخری حصہ میں ظہور ی کے متعلق حدیثیں ہیں ۔ تاویل کے بعد مذہبی فلسفے میں اسماعیلی اپنی اصطلاح حقیقت کہتے ہیں اس میں عالم کی ابتدا اور انتہاء رسالت و صابت ، امامت ، سمت ، بعث اور حشر وغیرہ کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ اسماعیلیہ عقیدہ کے طابق اپنے ائمہ کو خُدا کا اوتار یا مجسم خدا تصور کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں الہ ائمہ باہم باپ بیٹے کا رشتہ رکھتے ہیں لیکن باطن میں ایک روح ایک امام کے طالب سے منتقل ہو کر اُس کے جانشین میں آجاتی ہے اور یہ عقیدہ ہے کہ انسان کے حد اُس کی رُوح دوسرے انسان میں بھی منتقل ہوتی ہے ۔ اسماعیلی آغا خان کو ائمہ
حکیم سید ناصر خسرو : حکیم سید ناصرخسرو کا پورا نام ابومعین ناصر بن خسر و بن حارث ہے ان کا وطن بلغ اور لقب " حجت یا " حجت خراسان و بدخشان تھا دعوت فاطمی سے پہلے وہ خراسان کے وزیر تھے۔ حسن بن صباح انہی کے زیر اثر سے اسماعیلی ہوئے ان کی تمام تصانیف فارسی میں ہیں سید ناصر کی تصانیف دیوان ، روشنائی نامه، سعادت نامه، وجه دین، دار المسافرین سفرنامه، دلائل المترین خوان
حضرت علی کا اوتار تصور کرتے ہیں ۔
خــودم, [۲۳.۱۱.۲۳ ۱۲:۵۸]
368
اہل سنت سے ہے۔ (۲) نزاریہ سے جو فرقہ چلا اُس کی ترجمانی ( آغا خانی ) خوجے کرتے ہیں ۔ حسن بن صباح: اسماعیلیہ جماعت میں دو شخصوں نے بطور صاحب جریدہ کے نام پیدا کیا ہے ان میں سے ایک کا نام سید نا حکیم ناصر خسرو ( قدس اللہ سر ہ ) اور دوسرے حسن بن صباح ۔ ہزاری عام طور پر خوجے کہلاتے ہیں نزاریہ کے سب سے بڑے داعی حسن بن صباح ہے جس کا پورا نام حسن بن علی بن محمد بن جعفر بن ج حسین بن الصباح الحمیری تھا۔ حسن بن صباح ایرانی مشخص جو شہر طوس میں رہتا تھا اپنا سلسلہ نسب قدیم عربی نژاد نامور صباح حمیر سے ملاتے ہیں اسماعیلیوں کے بڑے داعی حسن بن صباح نے سید نا حکیم ناصر خسرو کے زیر اثر خلیفہ مستنصر کی بیعت لی اور وہ نزار کی امامت کی تبلیغ کرتے تھے کہ خلیفہ مستنصر کے بعد نزار امامت کا حقیقی مالک ہے ایران میں حسن بن صباح نے دعوت نزار یہ پھیلانی شروع کی جس کا اثر تقریبا ڈیڑھ سو سال
باقی رہا اس فرقے کے لوگ اب بھی موجود ہیں ۔
حسن بن صباح نے مشہور قلعہ الموت ( ایران کے نزدیک ایک نہایت دشوار
گزار اور تقریبا نا قابل تسخیر پہاڑی قلعہ ہے جس کو الموت یعنی آشیانہ عقاب کہا جاتا ہے ) پر قبضہ کیا اور اپنے ماننے والوں کو ایسی تعلیم دی کہ وہ سب ان کے ادنی اشارے پر اپنی جان فدا کرتے تھے اس وجہ سے ان کو فدائی بھی کہتے ہیں۔ حسن بن صباح نے اسماعیلی مذہب کو نئے سرے سے ترتیب دیا تبلیغ کے نئے اصول وضع کئے اور اس نے ظاہری عبادت کی جگہ باطنی عبادت کو فرض کیا۔ آغا خان کا خاندانی پس م منظر نہ تو نزار سے چلا ہے نہ مستعلی سے لیکن پھر بھی آغا خانی نزاری کہلاتے ہیں ۔
خــودم, [۲۳.۱۱.۲۳ ۱۲:۵۸]
372
الاخوان ، مصباح ، مفتاح ، دلائل گشائش دور ہائش ہیں۔ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ نے فرمایا کہ سید نا حکیم ناصر خسرو با فرد مولانا رومی کے مثنوی کے فلسفے سے بھی کہیں زیادہ گہرا ہے گذشتہ زمانے میں حضرت عیسی ، پیر صدرالدین ، سید نا حکیم ناصر خسرو پیر شمس اور مولانا رومی جیسے انسان
راہ حقیقت پر گامزن ہوئے ۔ ( کلام امام مبین حصہ اول ص ۳۵۵) اسماعیلیوں کے داعی حکیم حضرت سید نا پیر شاہ ناصر خسر و علوی ( قدس الله سرد العزیز ) کی شہرہ آفاق کتاب ” وجہ دین ( مطلب دین کا چہرہ ) جو فارسی سے اردو میں ترجمہ ہو افقہی موضوعات و مسائل کی تاویلات کا ایک عدیم المثال مجموعہ ہے ناصر خسرو کی کتاب ” وجہ دین“ جو دو حصوں میں تاویل میں لکھی گئی ہیں۔ اسماعیلیوں کے ہاں تاویل اور حکمت کی کتا بیں بام افلاک ( یعنی عرش اعلیٰ ) کی سیڑھی کی مانند کے
سمجھی جاتی ہیں۔
تاویل کے عربی زبان میں معنی اول کی طرف لوٹنے کے ہیں شیعوں کے تمام فرقے تاویل کے قائل ہیں ۔ تاویل کو شریعت کی حکمت ، دین کا راز اور علم روحانی بھی کہتے ہیں ہر نبی اپنا ایک وصی مقرر کرتا ہے نبی کا کام وہ لوگوں کو شریعت کے ظاہری احکام بتائے اور وصی کا کام یہ ہے کہ وہ ان کو ان کی تاویلوں سے آگاہ کرے۔ چنانچہ حکیم ناصر خسرو نے بھی اسی تاویل کی اہمیت کے پیش نظر کتاب" وجہ دین کی اساس اکاون گفتاروں پر رکھی ہے۔ ہر دانشمند حقیقی اسماعیلی پر اکاون کے عدد کی حقیقت کھل جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اب سے تقریبا ۹۰۰ سو سال پہلے ناصر خسرو علم تاویل کی روشنی میں اکاون رکعات کی تاویلی پیش گوئی جان چکے تھے۔
خــودم, [۲۳.۱۱.۲۳ ۱۲:۵۸]
368
اہل سنت سے ہے۔ (۲) نزاریہ سے جو فرقہ چلا اُس کی ترجمانی ( آغا خانی ) خوجے کرتے ہیں ۔ حسن بن صباح: اسماعیلیہ جماعت میں دو شخصوں نے بطور صاحب جریدہ کے نام پیدا کیا ہے ان میں سے ایک کا نام سید نا حکیم ناصر خسرو ( قدس اللہ سر ہ ) اور دوسرے حسن بن صباح ۔ ہزاری عام طور پر خوجے کہلاتے ہیں نزاریہ کے سب سے بڑے داعی حسن بن صباح ہے جس کا پورا نام حسن بن علی بن محمد بن جعفر بن ج حسین بن الصباح الحمیری تھا۔ حسن بن صباح ایرانی مشخص جو شہر طوس میں رہتا تھا اپنا سلسلہ نسب قدیم عربی نژاد نامور صباح حمیر سے ملاتے ہیں اسماعیلیوں کے بڑے داعی حسن بن صباح نے سید نا حکیم ناصر خسرو کے زیر اثر خلیفہ مستنصر کی بیعت لی اور وہ نزار کی امامت کی تبلیغ کرتے تھے کہ خلیفہ مستنصر کے بعد نزار امامت کا حقیقی مالک ہے ایران میں حسن بن صباح نے دعوت نزار یہ پھیلانی شروع کی جس کا اثر تقریبا ڈیڑھ سو سال
باقی رہا اس فرقے کے لوگ اب بھی موجود ہیں ۔
حسن بن صباح نے مشہور قلعہ الموت ( ایران کے نزدیک ایک نہایت دشوار
گزار اور تقریبا نا قابل تسخیر پہاڑی قلعہ ہے جس کو الموت یعنی آشیانہ عقاب کہا جاتا ہے ) پر قبضہ کیا اور اپنے ماننے والوں کو ایسی تعلیم دی کہ وہ سب ان کے ادنی اشارے پر اپنی جان فدا کرتے تھے اس وجہ سے ان کو فدائی بھی کہتے ہیں۔ حسن بن صباح نے اسماعیلی مذہب کو نئے سرے سے ترتیب دیا تبلیغ کے نئے اصول وضع کئے اور اس نے ظاہری عبادت کی جگہ باطنی عبادت کو فرض کیا۔ آغا خان کا خاندانی پس م منظر نہ تو نزار سے چلا ہے نہ مستعلی سے لیکن پھر بھی آغا خانی نزاری کہلاتے ہیں ۔
خــودم, [۲۳.۱۱.۲۳ ۱۲:۵۹]
373
جو دانشمند اس کتاب کو پڑھے تو وہ دین کو صیح ( معنوں میں ) پہچان سکے گا اور کھاتے ہوئے (دین) پر عمل کرسکے گا اوراللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کر کے اپنے مل کے معاوضے کے قابل ہو سکے گا۔ ہم نے اس کتاب کی گفتاروں کی بنیاد کاوان کے عدد پر رکھی ہے رسول اکرم کے بعد نور امامت کی اکا دن شخصیتوں کے کمل دور میں دین اور دنیا میں کیسے کیسے عجیب و غریب واقعات رونما ہوں گے اور اس کے بعد یکا یک کسی تعجب خیز اور حیرت انگیز انداز میں روحانی دور کا آغاز ہوگا اور کس طرح متعلقہ لوگ ۴۸، ۵۱،۵۰،۴۹ کی تاویل و حکمت سے حیرت زدہ ہونگے۔ اکاون کی تاویلی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اخوان الصفاء" نے اکاون رسالے لکھے گئے ۔ کتاب وجہ دین کا آخری مقصد یہ ہے کہ اس کتاب کے حقائق کی روشنی میں اس دور اور آئندہ دور کے متعلق خدا اور رسول نے جو کچھ پیش گوئی فرمائی ہے اُسے سمجھ لیا جائے اور روحانی دور میں نو را مامت اپنے مریدوں سے جو کچھ بھی
امتحان لینا چاہتا ہے اس کو بھی اس پر حکمت کتاب میں دیکھ پایا جائے۔ اسماعیلی فقہ میں قیاس اور رائے کو بالکل دخل نہیں اجتہاد گمراہی کا راستہ سمجھتے ہیں ۔ علم تاویل کو (علم کا دین ) بھی کہتے ہیں اکثر خوجوں کے نکاح ، طلاق اور
وراثت کے احکام اسلامی فقہ سے مختلف ہیں۔
اسماعیلی دعوت کا نظام : اسماعیلی شیعہ بی مرسل کو اطلق اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے کتاب و شریعت لاتے ہیں اور ظاہر بیان کرتے ہیں ۔ اسما عیلیوں کے عقیدے کے مطابق انبیاء ومرسلین میں سات " نطقا " ہیں اور ہرینی نافق کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ جسے اساس اور ایسی کہا جاتا ہے صامت" اس
'''پرویزی''' مسلک کے بانی غلام احمد پرویز صاحب ہیں یہ اسلام کے  سکالر تھے۔ غلام احمد پرویز  ۹ جولائی ۱۹۰۳ء کو ضلع گرداسپور کے قصبہ بٹالہ میں پیدا ہوئے ۱۹۲۱ ء میں لیڈی آف انگلینڈ ہائی سکول بٹالہ سے میٹرک کیا بی اے پاس کرنے کے بعد ۱۹۵۴ء میں وزارت داخلہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدہ پر فائز تھے پرویز  نے ۲۴ فروری ۱۹۸۵ ء کولا ہور میں وفات پائی۔
'''پرویزی''' مسلک کے بانی غلام احمد پرویز صاحب ہیں یہ اسلام کے  سکالر تھے۔ غلام احمد پرویز  ۹ جولائی ۱۹۰۳ء کو ضلع گرداسپور کے قصبہ بٹالہ میں پیدا ہوئے ۱۹۲۱ ء میں لیڈی آف انگلینڈ ہائی سکول بٹالہ سے میٹرک کیا بی اے پاس کرنے کے بعد ۱۹۵۴ء میں وزارت داخلہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدہ پر فائز تھے پرویز  نے ۲۴ فروری ۱۹۸۵ ء کولا ہور میں وفات پائی۔
== عقا‏ئد ==
== عقا‏ئد ==
confirmed
۱٬۱۳۰

ویرایش