confirmed
۱٬۱۳۰
ویرایش
بدون خلاصۀ ویرایش |
|||
خط ۴۲: | خط ۴۲: | ||
تاویل کے عربی زبان میں معنی اول کی طرف لوٹنے کے ہیں شیعوں کے تمام فرقے تاویل کے قائل ہیں ۔ تاویل کو شریعت کی حکمت ، دین کا راز اور علم روحانی بھی کہتے ہیں ہر نبی اپنا ایک وصی مقرر کرتا ہے نبی کا کام وہ لوگوں کو شریعت کے ظاہری احکام بتائے اور وصی کا کام یہ ہے کہ وہ ان کو ان کی تاویلوں سے آگاہ کرے۔ چنانچہ حکیم ناصر خسرو نے بھی اسی تاویل کی اہمیت کے پیش نظر کتاب" وجہ دین کی اساس اکاون گفتاروں پر رکھی ہے۔ ہر دانشمند حقیقی اسماعیلی پر اکاون کے عدد کی حقیقت کھل جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اب سے تقریبا ۹۰۰ سو سال پہلے ناصر خسرو علم تاویل کی روشنی میں اکاون رکعات کی تاویلی پیش گوئی جان چکے تھے۔ | تاویل کے عربی زبان میں معنی اول کی طرف لوٹنے کے ہیں شیعوں کے تمام فرقے تاویل کے قائل ہیں ۔ تاویل کو شریعت کی حکمت ، دین کا راز اور علم روحانی بھی کہتے ہیں ہر نبی اپنا ایک وصی مقرر کرتا ہے نبی کا کام وہ لوگوں کو شریعت کے ظاہری احکام بتائے اور وصی کا کام یہ ہے کہ وہ ان کو ان کی تاویلوں سے آگاہ کرے۔ چنانچہ حکیم ناصر خسرو نے بھی اسی تاویل کی اہمیت کے پیش نظر کتاب" وجہ دین کی اساس اکاون گفتاروں پر رکھی ہے۔ ہر دانشمند حقیقی اسماعیلی پر اکاون کے عدد کی حقیقت کھل جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اب سے تقریبا ۹۰۰ سو سال پہلے ناصر خسرو علم تاویل کی روشنی میں اکاون رکعات کی تاویلی پیش گوئی جان چکے تھے۔ | ||
== اسماعیلی دعوت کا نظام == | == اسماعیلی دعوت کا نظام == | ||
اسماعیلی دعوت کا نظام : اسماعیلی شیعہ بی مرسل کو اطلق اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے کتاب و شریعت لاتے ہیں اور ظاہر بیان کرتے ہیں ۔ اسماعیلیوں کے عقیدے کے مطابق انبیاء ومرسلین میں سات " نطقا " ہیں اور ہرینی نافق کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ جسے اساس اور ایسی کہا جاتا ہے صامت" اس | اسماعیلی دعوت کا نظام : اسماعیلی شیعہ بی مرسل کو اطلق اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے کتاب و شریعت لاتے ہیں اور ظاہر بیان کرتے ہیں ۔ اسماعیلیوں کے عقیدے کے مطابق انبیاء ومرسلین میں سات " نطقا " ہیں اور ہرینی نافق کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ جسے اساس اور ایسی کہا جاتا ہے صامت" اس | ||
لئے کہتے ہیں کہ وہ ظاہر کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں کی عادی کار ہوتے ہیں اور رومی صاحب تاویل: | |||
* کتبی مظاہری شریعت کی تعلیم ۔ | |||
* تیجی کے بعد وہی جس کا دوسرا نام صامت ہے۔ عقیدہ یہ ہے کہ دورشو پیغمبر ہوتے ہیں جن میں سے ایک ناطق (نہیں) ہوتا ہے دوسران میں (صامت) بانی علوم کی تعلیم الاساس التاویل فی ذکر (آدم) | |||
* اس کے بعد نام ظاہر ہی شریعت کی حفاظت اور باطنی علوم کی تعلیم ۔ | |||
* واقع السلاح داعی مطلق داعی الدعاۃ ۔ سب داعیوں کے صدر کو داعی الدمام کہتے ہیں داعی لوگوں کو امام کی طرف بلاتا ہے اور جو شخص داعی کی دعوت کا جواب ہوتا ہے اسے مستجیب کہتے ہیں اور جب مستجیب آمادگی ظاہر کرتا ہے پھر دائی اُس سے حید (میثاق لیتا ہے جسے اسماعیلی محمید الاولیا" کہتے ہیں۔ | |||
* مازون مستجیب سے عہد و میثاق لیتا ہے۔ | |||
مکاسر ان کے باطل مذہبوں کو رد کر کے اپنا مذہب بتاتا ہے مکاصر کے معنی توڑنے کے ہیں کیونکہ سویا عمل تاہیوں کو توڑتا ہے۔ | |||
== عيادات کے احکام کی چند تا ویلیں: == | |||
* حضور تاویل گناہوں سے نفس کو پاک کرنا حضرت علی کا اقرار کرنا کیونکہ وضو اور حضرت علی ہر ایک لفظ میں تین حروف ہیں۔ | |||
* کئی کرنا تاویل امام کا اقرار اور اس کی اطاعت کرنا۔ | |||
* منہ ہوتا، جہادیل امام اور سات ناطقوں اور سات اماموں کا اقرار کرنا کیونکہ 375 انسان کے چہرے میں سات سوراخ ہیں ۔ | |||
* سیدھا ہاتھ دھونا ، تاویل نبی یا امام کی اطاعت کرنا ۔ | |||
* بایاں ہاتھ دھونا ، تاویل وصی یا حجت کی اطاعت کرنا۔ | |||
* سرسح کرنا ، تاویل رسول خدا کا اقرار کرنا اُن کی شریعت پر چلنا۔ | |||
* سیدھے پاؤں کا مسح کرنا ، تاویل امام یا داعی کا اقرار کرنا۔ | |||
* بائیں پاؤں کا مسح تاویل حجت یا مازون کا اقرار کرنا۔ | |||
* دھونا ، طاعت کرنا۔ | |||
* مسح کرنا، اقرار کرنا۔ | |||
== نماز == | |||
نماز : نمازیں مجموعاً تین وجوہ سے ہیں جو فریضہ سنت اور تطوع کہلاتی ہیں تطوع کو نافلہ بھی کہتے ہیں۔ | |||
نماز فریضه شم (امام) پر دلیل ہے مست سے مراد امام زمان ہے یعنی چھ ائمہ کے بعد جو ساتویں امام ہوئے وہ متم کہلاتے ہیں۔ (نوٹ : تقریبا آدھی رات گذری ہو عربی زبان میں اس وقت کو منتصف اللیل کہتے ہیں یعنی مستم (امام) کی آخری حدود ہوتی ہے۔ جس میں اہل باطن اہل ظاہر سے اپنا حق دلا سکتا ہے یعنی ان کے لئے | |||
انصاف کر سکتا ہے۔ | |||
نماز سنت حجت پر دلیل ہے جس کو متم ( امام زمان ) نے مقررفرمایا ہے۔ | |||
تطوع ، یعنی دائی پر دلیل ہے تطوع جس کا مطلب بیٹے کا بیٹا ہوتا ہے جو ماذون پر دلیل ہے اور وہ داعی کا قائم مقام ہوتا ہے نماز فریضہ امام کی دلیل ، سنت حجت کی دلیل ، نافلہ داعی کی دلیل ہے۔ نماز جمعہ ناطق کی دلیل ، نماز عید الفطر اساس کی دلیل ، نماز عید الضحی ، قائم قیامت علیہ افضل التحیہ والسلام کی دلیل ہے، نماز | |||
جنازہ مستجیب کی دلیل ، طلب بارش کی نماز ، خلیفہ قائم کی دلیل ، نماز کسوف جو سورج گرہن یا چاند گرہن کے موقع پر پڑھی جاتی ہے امام مستور کی دلیل ہے۔ ان کو نمازوں کے بعد نماز خوف نماز مسافر، نماز حاضر پوری وغیرہ بھی نمازیں ہیں۔ نماز کی وہ حدبندیاں سات ائمہ اور سات نطقاء کی تعداد کے برابر ہے ان میں سے چار تو فریضے ہیں جن کے بغیر نماز روا نہیں تین سنتیں ہیں جن کے بغیر نما ز روا نہیں۔ عقل گل / قبله نفس كل وقت، ناطق / نیت، اساس/ طهارت، امام اذان، حجت / اقامت، داعی / جماعت ۔ نمازی ان سات فرائض کو بجا لاتا ہے تو اُس کی ر نماز مکمل ہو جاتی ہے۔ سات ناطق : آدم ، نوح، ابراہیم ہوئی عیسی محمد ﷺ اور قائم سات اساس ، مولانا شیت، مولانا سام، مولانا اسماعیل، مولانا هارون، مولانا شمعون ، مولانا علی ، اور خلیفہ قائم ، سات امام ہر چھوٹے دور کے سات ائمہ۔ ساتویں عدد پر اسماعیلیوں کا بڑا دار و مدار ہے کیونکہ وہ اعداد میں پہلا عدد کامل ہے سات رنگ، سات آوازیں ، سات دھاتیں، سات آسمان، سات زمین، سات سیارے ، سات یوم، سات سمندر الغرض ہر چیز سات تھی اور اس کبھی نظام کو قائم رکھنے کے لئے اللہ نے سات امام مذکورہ بالا مقرر فرمائے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس کے سات دور مقرر کئے جن کے سات ناطق آئے ۔ اسی وجہ سے اسماعیلی سبیعہ“ کہلاتے ہیں۔ باب ، حجت ، دائی، مازون اور پانچ حدود علوی بینی مقتل، نفس، جد، فتح اور خیال، اذ ان دعوت ظاہر کی دلیل ہے پہلا مرتبہ ماون کا دوسرا دائی کا تیسرا حجت کا چوتھا امام کا پانچواں اساس کا چھٹا ناطق کا ، بسم اللہ ، خُدا کا نام اور خدا کا حقیقی نام تو امام زمان ہے۔ وصی اور رسول دونوں اپنے اپنے وقت میں خدا ہو ہو یا یقی ہم ہیں کیونکہ انہی کے ذریعہ کی کوخدا کی پہچان ہوسکتی ہے تاویل انسان سویا اور بیدار ہو تاک برابر سانس لیتی رہتی ہے اسی طرح (امام علیہ السلام) متواتر و مسلسل اپنا کام کرتے رہتے ہیں ہمیشہ لوگوں پر فیض برساتے رہتے ہیں۔ | |||
(1 ) نماز پڑھنا، داعی کی دعوت میں داخل ہونا یا رسولخدا کا اقرار کرنا کیونکہ صلوۃ اور محمد ہر ایک لفظ میں چار حروف ہیں۔ | |||
(۲) قبلہ کی طرف متوجہ ہونا ، امام کی طرف متوجہ ہونا قائم القیامت علیہ افضل التیمیہ والسلام اور قبلہ عقل کل پر دلیل ہے۔ | |||
(۳) ظہر کی نماز ، رسول خدا کی دعوت میں داخل ہونا۔ | |||
(۴) عصر کی نماز ، حضرت علی یا صاحب القیامہ کی دعوت میں داخل ہوتا ۔ | |||
(۵) مغرب کی نماز ، آدم کی دعوت میں داخل ہونا آدم میں تین حروف ہیں اور مغرب کی تین رکعتیں ہیں ۔ | |||
(۶) عشاء کی نماز ، چار نقیبوں کی دعوت میں داخل ہونا۔ (۷) فجر کی نماز ، مہدی کی دعوت میں داخل ہونا۔ | |||
(۸) تکبیرہ الاحرام، امام، حجت اور سات ناطقوں کا اقرار کرنا۔ | |||
(9) رکوع و سجود، حجت اور امام کی معرفت اور اطاعت ۔ | |||
( ۱۰) نماز ختن رات کی تاریکی میں پڑھی جاتی ہے نا صبح کونماز پیشین کہتے ہیں۔ روزہ: | |||
(1) ماہ رمضان کے روزے رکھنا ، شریعت کا باطنی علم اہل ظاہر سے چھپانا ۔ | |||
(۲) تمہیں روزے، حضرت علی اور امام مہدی کے درمیان دس حجتیں اور دس ابواب ہیں۔ | |||
(۳) لیلتہ القدر خاتم الائمہ کی حجت یا حضرت فاطمہ جن کی طرف پیرات منسوب ہے۔ | |||
'''پرویزی''' مسلک کے بانی غلام احمد پرویز صاحب ہیں یہ اسلام کے سکالر تھے۔ غلام احمد پرویز ۹ جولائی ۱۹۰۳ء کو ضلع گرداسپور کے قصبہ بٹالہ میں پیدا ہوئے ۱۹۲۱ ء میں لیڈی آف انگلینڈ ہائی سکول بٹالہ سے میٹرک کیا بی اے پاس کرنے کے بعد ۱۹۵۴ء میں وزارت داخلہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدہ پر فائز تھے پرویز نے ۲۴ فروری ۱۹۸۵ ء کولا ہور میں وفات پائی۔ | |||
(۴) عیدالفطر ، امام مہدی کا ظہور ۔ | |||
(۵) عید الاحی ، صاحب القیامہ کا ظہور۔ | |||
حج : | |||
(1) بیت اللہ کا قصد ، امام کی طرف متوجہ ہونا امام ہی (حقیقت مسجد الحرام ہیں) اور داعی اس کی محراب ہے محراب کا رُخ مسجد الحرام کی طرف ہوتا ہے اسی طرح داعی کا چہرہ امام کی طرف ہوتا ہے۔ | |||
(۲) کعبہ، حضرت رسول خدا۔ | |||
(۳) باب کعبہ، حضرت علی ۔ | |||
(۴) حجر اسود، امام الزماں کی وہ حجت جوان کے بعد امام ہو۔ | |||
(۵) لبیک کہنا ، امام کی دعوت کا جواب دینا۔ | |||
(۶) خانہ کعبہ کا سمات بار طواف کرنا ، سات اماموں کے احکام کی پیروی کرنا جن میں ساتواں قائم ہوتا ہے۔ | |||
لا الہ الا اللہ: کلمہ اخلاص (1) لا ( کلمه اول ) ، اساس (۲) اله ( کلمه دوم ) ، ناطق (۳) الا ( کلمه سوئم ) ، لوح (۴) اللہ (کلمہ چہارم ) کلمہ سات ناطق یا سات امام۔ | |||
== نظریہ قیامت == | |||
نظریہ قیامت: اسماعیلی عقیدے کے مطابق قیامت صرف روحانی ہے بہشت و دوزخ دونوں معنوی (باطنی ) ہمیں ہر ایک شخص کی قیامت اس کی موت ہے۔ بہشت | |||
حقیقت میں عقل گل ہی ہے یا عقل کل ہی بحقیقت بہشت ہے اور بہشت کا دروازہ اپنے زمانے میں رسول ملے ہیں اور ان کے وصی اپنی مرتبیت میں اس حیثیت سے ہیں اور امام زمان اپنے عصر میں ہی درجہ رکھتے ہیں اور بہشت کے دروازہ کے کلید کمہ لا الہ الا الله حمد رسول اللہ ہے ۔ پس جو شخص شہادت اخلاص ( بے رہائی ) سے کہتا ہے تو گویا اسے بہشت کا درواز و یعنی رسول مل چکا ہے پس رسول بہشت کے دروازو کی حیثیت سے ہیں اور بہشت کا دروازہ کھولنے والا ان کے دیسی علی علیہ اسلام) ہیں ۔ نیز ہر زمانے میں ) سارے مومنوں کے لئے ( دروازہ جنت کھولنے والا ) امام زمان ہیں۔ | |||
حکیم سید ناصر خسرو کہتے ہیں حق تعالی نے انسان کو خوف اور امید کے لئے پیدا کیا ہے چنانچہ خُدا نے اس کو بہشت کے ذریعہ اُمید دلائی اور دوزخ کے ذریعہ ڈرایا ہے انسان کے نفس میں جو خوف پایا جاتا ہے وہ دوزخ کا نشان ہے اور انسان میں جو امید پائی جاتی ہے وہ بہشت کا اثر ہے یہ دونوں چیزیں ( یعنی جزوی خوف اور جزوی اُمید ) جو انسانی فطرت میں پوشیدہ ہیں وہ دوزخ اور بہشت ہیں۔ وجہ دین میں لکھا ہے کہ ہمیشہ دنیا سے آخرت اور آخرت سے دنیا پیدا ہوتی رہتی ہے اور دین کے نظریات کا مدار و محمود یہی ہے۔ | |||
== امام مہدی == | |||
امام مہدی: اسماعیلیوں کے ہاں حضرت علی کی نسل سے قیامت تک آئمہ قائم ہوں گے آخری امام قائمہ القیامہ ہوگا جو دور کشف کا پہلا امام ہوگا۔ اسماعیلیوں کے ہاں ” مہدی“ کا ظہور ہو چکا ہے۔ اور ان کی نسل سے قیامت کے روز جو امام ظاہر ہونگے وہ قائم القیامتہ ہوں گے۔ اسماعیلیوں کے لحاظ سے مہدی کی ولادت ۲۶۰ھ میں عسکر مکرم میں ہوئی پھر اس کا باپ اسے سلمیہ لے گیا جو ائمہ مستور ین کا مستقر تھا ( استنار الامام ص ۵۹) امام عبدالله بن الحسین المستورہی ” مہدی“ ہیں۔ جو گیارہویں امام اور فاطمین کے ظہور کے پہلے خلیفہ ہیں اسماعیلیوں کے مطابق ہر زمانے میں ایک امام کا وجود ضروری ہے زمین کبھی امام سے خالی نہیں رہ سکتی ورنہ وہ منزل ہو جائے ۔ | |||
اماموں کا سلسلہ روز قیامت تک حضرت فاطمہ ہی کی نسل میں جاری رہے گا باپ کے بعد بیٹا خواہ وہ عمر مں بڑا ہو یا چھوٹا بالغ ہو یا نا بالغ امام ہوتا رہے گا۔ سنی عقیدہ یہ ہے کہ ایک شخص قریش یا بنی فاطمہ میں سے ہوگا جس کا نام محمد جس کے والد کا نام عبداللہ ہوگا اور جو قیامت سے قبل نمودار ہوگا ۔ قرامطہ محمد بن اسماعیل کو زندہ خیال کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہی امام مہدی کی حیثیت میں دوبارہ نمودار ہونگے کیسانیہ حضرت محمد ابن حنفیہ کے متعلق اس قسم کا اعتقاد رکھتے تھے۔ امامیہ اثنا عشری کے مطابق امام حسن عسکری کے فرزند (امام محمد مہدی ) جو وفات سے قبل دشمنوں کے خوف سے مستور ہو گئے تھے امام مہدی ہیں۔ | |||
دولت فاطمیہ کا پہلا امام مہدی محمد بن اسماعیل کی نسل سے ہے اسما عیلیہ عبداللہ کو مہدی جانتے ہیں ۔ مہدی کا نسب نامہ چونکہ عبداللہ امام مہدی کا مسئلہ اسما عیلیہ عقیدہ کی اصل بنیاد سے تعلق رکھتا ہے ان کے خاندان میں ایک شخص عبداللہ نامی تھے جن کو اسماعیلی محمد بن اسماعیل اور ان کے مخالفین میمون قداح کا فرزند بتاتے ہیں اسماعیلی اعتقاد کے لحاظ سے امام عبداللہ بن حسین المستور ہی مہدی ہیں جو دور ظہور کے پہلے امام ہیں ۔ مہدی کی ولادت ۲۶۰ ھ میں عسکر مکرم میں ہوئی ( نوٹ : عسکر مکرم جگہ کا نام ہے ) عبداللہ المہدی حضرت محمد بن اسماعیل کے ایک بیٹے عبداللہ جو اسماعیلی روایت کے مطابق اپنے والد کے جانشین ہوئے ان کے بیٹے احمد بن عبد اللہ اسماعیلی جماعت کے پیشوا ہوئے پھر حسین ابن احمد کے انتقال کے بعد ان کے فرزند عبد اللہ جو بعد میں مہدی کے لقب سے ملقب ہوئے اس وقت بالغ نہ تھے ان کی پروش کی سیادت حضرت حسین کے بھائی محمد الحبیب کے حصہ میں آئی جب عبد اللہ بالغ ہو گئے تو باپ کی وصیت کے مطابق امامت ان کو منتقل ہوگئی۔ | |||
== ائمه مستورین == | |||
ائمه مستورین: اسماعیل بن جعفر صادق کے بعد جو ائمہ گزرے وہ ہمیشہ بنوعباس خوف سے اپنے آپ کو چھپایا کرتے تھے یہاں تک کے محمد بن اسماعیل کا نام جیسا کہ ابن خلدون نے بیان کیا بنو عباس کے خوف سے اپنے آپ کو اتنا پوشیدہ رکھا کہ ان کا نام ” محمد مکتوم“ پڑ گیا۔ میمون القداح امام محمد بن اسماعیل کا فرضی نام تھا جو صرف عباسیوں کے ڈر سے بچنے کے لئے اختیار کیا تھا میمون القداح کوئی علیحدہ شخص نہ ہے عوام الناس محمد بن اسماعیل کو میمون القداح سمجھتے ہیں لفظ قداح محمد بن اسماعیل کا بیٹا عبد اللہ نے اپنا پیشہ آنکھوں کا معالجہ اختیار کیا اس لئے یہ قداح کے نام سے مشہور ہو گئے ۔ (نوٹ : مختلف فرضی ناموں کا اختیار کرنا اسماعیلیوں کے ہاں کوئی نئی بات نہیں اکثر اوقات ائمہ مستورین نے ایسا کیا ہے ) محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق اور عبد اللہ بن میمون القداح ( یعنی غیب دان کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے ) دونوں کا وجود تاریخ سے ثابت ہے اکثر مورخین نے مہدی کو عبد اللہ بنمیمون القداح کی طرف منسوب کیا ہے۔ | |||
== کتامہ == | |||
کتامہ: "کتامہ قبیلے کا نام ہے جس کے معنی چھپانے کے ہیں یہ لوگ اپنے مذہب کو بہت چھپاتے تھے کتامہ کتماں سے مشتق نہیں ہے صرف ایک قبیلے کا نام ہے جس کے اکثر افراد حلوانی فرقے کے زیر اثر اسماعیلیت اختیار کر چکے تھے۔ اسماعیلیہ کے تین ائمہ مستورین مشہور ہیں حضرت امام محمد ( المکتوم ) کے انتقال کے بعد (۱) عبد اللہ ( الرضی ) (۲) احمد ( الونی ) (۳) حسین (المتقی ) ۔ یہ تینوں ائمہ مستورین کہلاتے ہیں ان کے مستور ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ان تینوں نے بہت پوشیدہ طور پراپنی زندگی بس کی حسین تین ائمہ مستور ین کے آخری بار مستورین کہلاتے ہیں ۔ حسین نے اپنے انتقال کے وقت یہ پیشین گوئی کی تھی کہ میرا لڑکا ( عبد اللہ ) مہدی موعود ہو گا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنادین ظاہر کرے گا۔ اسماعیلیوں کی دوسری جماعت : آغا خانی خوجوں کی نسبت ان کے نظام و عقائد خاص طور پر غیر اسلامی ہیں اس جماعت کا دائرہ بڑا وسیع ہے اور ان میں کئی ایسے طبقے شامل ہیں جن کا اسلام سے بہت دور کا تعلق ہے۔ شاہ شمس سبز واری خوجوں کے دوسرے مبلغ شاہ شمس تھے جو ملتان میں مدفون ہیں انہیں عام طور پر شاہ شمس تبریز کہا جاتا ہے خواجہ روایات کے مطابق وہ ایران کے شہر سبزوار سے تشریف لائے بعض ملتان کے خوجے امام آغا خان کو اپنادیو تا تسلیم کرتے ہیں اور اپنے آپ کو شاہ شمس کے نام پر کسی کہلاتے ہیں۔ | |||
== اسماعیلی خوجہ جماعت == | |||
اسماعیلی خوجہ جماعت کے سب سے بڑے داعی جنہوں نے عام نزاری عقائد کو ہندوستانی ماحول کے مطابق نئے سرے سے ترتیب دیا پیر صدرالدین جو خراسان سے پاکستان آئے اور اب ریاست بہاول پور کے ایک گاؤں ترنڈہ گور گنج میں مدفون ہیں اور وہیں پر ان کا مزار تعمیر ہوا قریب ہی پیر صدرالدین کے بیٹے پیر غیاث الدین مدفون ہیں بہاولپور میں پیر صدرالدین کو چوراسی روضہ والا بھی کہتے ہیں مشہور یہ ہے کہ ان کی اولاد میں سے چوراسی اولیاء ہوئے ۔ پیر صدرالدین کی نسبت آغا خانیوں کے مطابق آغا خان کے ایک مورث اعلیٰ شاہ اسلام نے پیر صدر الدین کو داعی بنا کر ایران سے بھیجا تھا اور بہت لوگ ان کے یا ان کی اولاد کے ہاتھوں اسماعیلی ہوئے ۔ پیر صدالدین نے ایران سے آکر ہندوستان میں اسماعیلیوں کی تین جماعتیں منظم کیں۔ | |||
پنجاب میں بھی ۔ میں مکھی سیٹھ شام داس لاہوری ۲۔ کشمیر میں لکھی سیٹھ جیسی داس سندھ میں مکھی تریکیم تھے سندھ اور مغربی پنجاب میں نجاب میں لوہا نہ قوم کے بہت سے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بعیت کی۔ | |||
اسماعیلیوں کا پہلا جماعت خانہ سندھ کے گاؤں ہاڑہ میں پیر صدرالدین کے ہاتھوں قائم ہوا۔ پیر صدالدین اپنا سلسلہ امام حسین سے تیسویں (۲۳) پشت سے ملاتے ہیں۔ پیر صدرالدین اور ان کے بیٹے سید کبیر الدین حسن نے اسماعیلیوں میں نئی روح پھونک دی اور اشاعت مذہب کے لئے یادگار چھوڑی۔ | |||
پیر صد الدین نے ایک کتاب دس او تار کے نام سے لکھی یا رائج کی اس کتاب میں رسول اکرم کو برہما کہا حضرت علی کو وشنو اور حضرت آدم علیہ سلام کو شنو سے تعبیر کیا ہے یہ کتاب خوجہ قوم کی مقدس کتاب کبھی جاتی ہے اور مذہبی تقریبوں پر اور نزاع کے وقت مریض کے بستر کے قریب پڑھی جاتی ہے ۔ موجوں کی ایک اور مقدس کتاب گنان ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کو پیر صدرالدین کے بیٹے نے مرتب کی۔ اگرچہ بعض خوبے اس کتاب کو ان کے والد پیر صدرالدین سے منسوب کرتے ہیں ) پیر صدرالدین کے پانچ بیٹے تھے حسن کبیر الدین ، ظہر الدین، غیاث الدین رکن الدین ، تاج الدین، سندھی خوبے پیر صدرالدین کے بڑے بیٹے حسن کبیر الدین کے بڑے معتقد ہیں اور انہیں ان کے والد کی طرح پیر کا خطاب دے رکھا ہے۔ پیر کبیر الدین حسن کا نام حسن دریا بھی مشہور ہے ۔ سندھی فوجوں میں اثنا عشری اور اسماعیلی رسوم پر اختلاف ہے وہاں بعض خوبے تعزیے نکالتے ہیں آغا خان اول نے اس کی مخالفت کی اس بنا پر وہاں ایک حصہ جماعت سے اگلہ ہو گیا ان کے دو بڑے مرکز شمالی پنجاب اور چترال اور دوسرے کچھ کالی داز اور مغربی ہندوستان میں بھی ہیں ۔ پیر صدرالدین اور ان کا بیٹا پیر حسن کبیر الدین دونوں خوجے فرقے کے بانی تھے۔ پیر صدرالدین وہ واحد آدمی تھے جنہوں نے خوبہ کمیونٹی کو ایک نام دیا خوجگان دراصل، آغا خانی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آغا خان جماعت نے کئی فلاحی ادارے قائم کئے آغا خان میڈیکل کالج ، آغا خان یونیورسٹی اور آغا خان ہسپتال قابلِ ذکر ہیں، شمالی علاقہ جات میں بھی فلاحی ادارے کھولے ہیں۔ | |||
اثنا عشری شیعہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں لیکن اسماعیلی جماعتوں نے امامت کو صرف سات اماموں تک محدود نہیں کیا۔ بلکہ اس سلسلہ کو جاری رکھا ہوا ہے کہ ہر زمانہ میں حاضر امام کا ہونا لازمی ہے۔ پیر صدرالدین کی ایک مذہبی کتاب جس کا نام انہوں نے دسا اوتار ( دس اوتار ) رکھا۔ اس مذہبی کتاب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دسواں اوتار مانا ۔ اسماعیلی خوجوں نے اس کتاب کو ابتداء ہی سے بطور آسمانی کتاب کے مانا اور مرنے کے وقت وہ کتاب ہمیشہ برکت کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ اس طرح بہت سے دستورات میں اُس کو پڑھتے ہیں خوجوں نے آغا خان کو اسما عیلی خاندان کا امام اور اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا ہے آغا خان خود اسماعیلی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے ان کو امام تسلیم کیا گیا ہے جب مصر میں سلاطین اسماعیلیہ کی حکومت کو زوال آیا تو آغا خان کے آباؤ اجداد ایران کے مشرقی حصہ میں آباد ہو گئے ۔ بہر صورت ایران میں سکونت اختیار کرنے کے بعد عرصہ دراز تک آغا خان کے اسلاف کے خاندان کی تاریخی حالات کا پتہ کہیں چلتا ۔ حسن علی شما و جب ہندوستان میں آئے رودی جرگے اُن کی سرعنائی کو تسلیم کرتے تھے۔ | |||
والا شخص سے مراد امام حق ہے اس واحد شخص سے دنیا ہرگز خالی نہیںکیونکہ اس دارد مشخص (امام) حق کے بغیر مخلوق قائم نہیں رہ سکتی اور صرف واحد شخص ( امام ) حق حقوق کی معہداشت اور حفاظت کر سکتا ہے اگر وہ واحد شخص اس جہان سے چلا جائے تو لان ما تمام مخلوق کی بہتری بھی ختم ہو جائے گی امام حق درخت کے میووں کی دلیل ہے کہ میرے اپنے درخت کی زینت بھی بن سکتے ہیں اور اس کی آئیندو نوع کو بھی باتی ہیجاری رکھ سکتے ہیں امام آل رسول ( یعنی علی ابن ابو طالب اور فاطمہ زہرا کی اولاد) سے ہونا چاہئے اور وہ امام دیتی امور کے لئے زندہ اور حاضر ہونا چاہئے۔ اگر چہ ہر امام اپنے زمانے میں روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں جو شخص مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جاہلانہ صورت میں مرتا ہے اور ایسا شخص دوزخ میں جا گرتا ہے پس جو شخص امام کو پہچانے تو اس پر امام کی اطاعت واجب ہوتی ہے۔ پیس مومن پر فرض ہے کہ اپنے امام زمان کو پہنچانے تا کہ امام کی اطاعت کرنا لازمی ہو۔ اے ایمان والوں خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان قرمان کی اطاعت کرو جو خدا کی طرف سے تمہارے درمیان ہیں۔ موت الصلاح دنیا کم ونجات اخر تحکمہ میں تمہاری دنیاوی بہتری اور آخروی | |||
نجات کے لئے مامور ہوا ہوں۔" آغا خان اول تا چهارم : اسماعیلی فرقے کے امام کا اعزازی لقب جو سب سے پہلے آقائے حسن علی شاہ کو ملا سلسلہ امامت میں اب تک چار آغا خان ہو چکے ہیں۔ | |||
== آغا خان اول == | |||
آغا خان اول : ۱۸۰۰ تا ۱۸۸، پورا نام حسن علی شاہ ہے فتح علی شاہ کا چار کے منظور نظر داماد تھے ان کے والد شاہ جلیل صوبہ کرمان کے گورنر تھے ان کی وفات کے بعد شہنشاہ ایران فتح علی شاہ نے آغا حسن علی شاہ کو کرمان کا گورنر مقرر کیا اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی ۔ اس وقت سے دربار ایران میں ان کے خاندان کا نام آغا خان پڑ گیا جو آگے چل کر خاندانی لقب بن گیا آغا خان کا لقب نہ تو امام یا پیر کی مانند کوئی مذہبی لقب ہے اور نہ ہی اسم معرفہ بلکہ محض ایک عرف ہے جو ان کے خاندان کے لئے مخصوص ہوا ۱۸۳۸ء میں کرمان میں بغاوت ہوگئی اور آغا حسن علی شاہ سندھ چلے آئے۔ آغا خان دوم: آغا خان اول کے بعد اُن کے بیٹے آغا علی شاوان کے جانشین ہوئے وہ اپنی خُدا ترسی اور علمیت کی وجہ سے اپنے وقت کے ایک مشہور شخصیت تھے آغا علی شاہ ۱۸۸۵ء میں فوت ہوئے انہوں نے صرف چار برس اسماعیلی | |||
== آغا خانی فرقے کی امامت کی == | |||
آغا خان سوم : سلطان محمد شاہ ۲۰ نومبر ۱۸۷۷ء کو کراچی میں پیدا ہوئے جو تاریخ میں سر آغا خان کے لقب سے مشہور ہوئے اسماعیلیہ فرقے کے اڑتالیسویں امام ہوئے ۱۹۴۹ء میں حکومت ایران نے انہیں ایرانی قومیت عطا کی اور " والا حضرت ہمایوں“ کا اعزار بخشا ۱۹۵۱ء میں حکومت شام نے انہیں " شان بنوامیہ " عطا کیا ۱۹۵۳ء میں انڈو نیشیا نے گل سرخ و گل سفید سے نواز ا سر آغا خان فرقہ اسما عیلیہ کے پہلے امام تھے جو اپنے مریدوں میں ہیرے، جواہرات ، سونے، اور پلاٹینم میں تو لے گئے ۔ ۱۹۳۵ ء اور ۱۹۴۵ ء میں ان کی قیمت ایک کروڑ ۶۵ لاکھ روپے کے قریب تھی ۔ پہلی شادی ۲۸ برس میں چازاد بہن سے ہوئی دوسری شادی تھر یا میلیانو اور تیسری آندرے جوزفین لیونی کاغوں سے ہوئی۔ ان کا اسلامی نام ام حبیبہ تھا اور عام طور پر ما تا سلامت" کے لقب سے مشہور تھیں سر آغا خان ( جولائی ۱۹۵۷ ، کو سوئٹزر لینڈ میں درسوا کے مقام پر فوت ہوئے اسوان ( مصر ) میں دفن ہوئے سلطان محمد شاہ اسما عیلیه آغا خانی فرقے کے ۴۸ ویں امام ہوئے ہیں۔ آغا خان چهارم: شہزاده کریم آغا خان ۱۳ دسمبر ۱۹۳۶ء کو پیدا ہوئے ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء کو دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں حاضر امام چنے گئے امامت پر فائز ہونے کی پہلی رسم ( ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء ) کو جینوا میں ادا ہوئی (۲۶ اکتوبر ) کو نیروبی میں ( ۲۳ جنوری ) کو کراچی میں (۲۱ مارچ ) کو بمبئی میں ان کی گدی نشینی کی رسوم ادا کی گئی۔ | |||
نزاری خوجے اور شمسی ہندو ان کو اپنا معبود تصور کرتے ہیں اور مختلف ناموں حاضر امام، خداوند ، شاه پیر، گور پیر ) وغیرہ سے اپنی دُعاؤں میں مخاطب کرتے ہیں پرنس کریم آغا خان چہارم دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں (۴۹) حاضر امام ہیں پرنس کریم آغا خان کے تین بچے ہیں شہزادہ رحیم، شہزادی ذہرہ اور شہزادہ حسن ہیں اب موجودہ آغا خان کے پیروکار امامی اسماعیلی اور عرف عام میں آغا خانی کہلاتے ہیں ہندو پاک میں دس لاکھ سے زیادہ ہیں ۔ گلگت چترال میں اسما عیلیہ فرقے کی کافی آبادی موجود ہے چوغان کے نواح میں اور افغانستان ، ترکستان کوہ پامیر کی وادیوں میں اب بھی موجود ہیں ۔ اسماعیلیہ بوہروں اور خوجوں سے زیادہ منظم اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں <ref>اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص ۴۸</ref>۔ | |||
فرقہ اسماعیلیہ اس فرقہ کا اعتقاد ہے کہ امام جعفر صادق کے بیٹے حضرت اسماعیل امام ہیں اور اسماعیلیہ فرقے اسی امام کی نسبت سے اسماعیلی کہلاتے ہیں؟ | |||
امام جعفر صادق کے انتقال کے بعد شیعہ کے تین گروہ ہو گئے۔ | |||
(1) پہلے فرقے نے امام موسی کاظم کو امام مانا جو امام جعفر کے بیٹے تھے۔ | |||
۲) دوسرے فرقے نے جان لیا کہ حضرت اسماعیل ضرور فوت ہو گئے ہیں امام | |||
جعفر کے بیٹے محمد امام ہیں اور امامت اُن کی ہے۔ | |||
(۳) تیسرا فرقہ حضرت اسماعیل کی حیات کا کہ وہ زندہ ہے پچھلے دونوں فرقے اسماعیلیہ کہلاتے ہیں اور پہلا فرقہ امامیہ میں شمار ہوتا ہے۔ اسماعیلیہ کہتے ہیں کہ اسماعیل کی اولاد میں قیامت تک امامت بنی رہے گی ۔ اسماعیلیہ بھی امام کی موت کے بعد امام کا دُنیا میں لوٹ آنے کے قائل ہیں ۔ اسماعیلیہ کا لقب محمد بھی ہے اور اس لقب کی وجہ معیت ( مردہ ) میں سرخ لباس پہننا اختیار کیا تھا۔ | |||
== اسماعیلی خوجے == | |||
اسماعیلی خوجے: یہ فرقہ امامی اسماعیلی بھی کہلاتا ہے اور بمبئی و مدراس وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے۔ خاص کر کاٹھیاواڑ کے جزیرہ نما میں زیادہ رہتے ہیں اور انہوں نے اپنی تجارتی نو آبادیاں افریقہ کے مشرقی کنارے پر قائم کی ہیں ۔ بمبئی میں بہت کم تعداد میں سنی خوجوں کی جماعت ہے باقی تمام اسماعیلی خوبے آغا خانی ہیں اور سر ہائی نس آغا خان کو اپنا حاضر امام اور اپنا روحانی پیشوائے مذہب تسلیم کرتے ہیں۔ | |||
مگر فروری ۱۹۰۰ ء سے آغا خانی جماعت کے دو حصے ہو گئے ۔ | |||
ا ایک وہ جو آغا خانی یعنی امامی اسماعیلی ہیں۔ | |||
دوسرے خوجے وہ ہیں جو اثنا عشری مذہب پر ایمان رکھتے ہیں ۔ | |||
اثنا عشری خوجوں نے اپنی ایک بڑی مسجد امام باڑہ اور مدرسہ و غیرہ تعمیر کیے ہیں ان میں بھی کافی پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ہندوستان میں اسماعیلی فرقہ کے لیے صدرالدین تقریبا چار سو برس پہلے ہندوستان آئے اور انہوں نے اسماعیلی فرقے کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان میں سب سے پہلے خوجوں کو اسماعیلی بنانے کے لیئے بے صعدہ الدین ہی آئے تھے ۔ اور یہ مضمون سلطان محمد شاہ آغا خان کے بیان سے ماخود | |||
ہے۔ (انسائیکلو پیڈیا آف انڈیا کی دوسری جلد کے صفہ نمبر ۱۳۵ میں لکھا ہے ) خوجوں نے آغا خان کو اسماعیلی خاندان کا امام اور اپنا دھانی چایو تسلیم کیا آنا خان خاندان نزاریہ میں سے ہیں نہ مستعلویہ میں سے یہی وجہ ہے کہ بوہرے جو مستعلو یہ عقیدہ پر ہیں آغا خان کی امامت کے منکر ہیں۔ اسماعیلی ( آغا خانی): فرقے کے بارے چند فروعی و شرعی مسائل جو زبان زدعام میں وہ اس طرح ہیں ( واللہ عالم بالصواب ) کہ اسما عیلیہ فرقہ کا کلمہ طیبہ کچھ یوں ہے - اشهد ان لا اله إلا اللهو أشهد أن محمد الرسول الله والشهدان على ولى اللہ، نماز کی جگہ وہ تین وقت کی دُعا جماعت خانہ میں پڑھتے ہیں۔ اسماعیلی اپنی عبادت کو دُعا کا نام دیتے ہیں ان کی عبادت میں اٹھارہ رکھا تیں شامل ہوتی ہیں۔ اسماعیلی بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح جمعہ کو عبادت کے لئے جماعت خانہ میں اکٹھے ہوتے ہیں بیشتر جماعت خانوں میں ایک بھی ہوتا ہے جو عہدے میں ہوا ہوتا ہے اور چھوٹا کماد یہ جسے اس کا نائب جانا جاتا ہے جماعتی فرائض انجام دیتے ہیں۔ جماعت خانوں میں مرد اور عورتیں علیحدہ علیحدہ قطاروں میں بجھتے ہیں۔ مردوں کی سر براہی کا فریضہ مکھی اور کماد یہ صاحبان انجام دیتے ہیں۔ دعا میں قیام، سجدے کرتے ہیں اور اپنا رخ قبلہ (امام) کی طرف کرتے ہیں ان کے جماعت مادر میں محراب اور ممبر نہیں ان کی ہاں اذان نہیں۔ حج حاضر امام کا دیدار ے اسلام میکنی جگہ یا علی مدد مولاعلی مدد کہتے ہیں۔ اسماعیلی آمدن کا ساڑھے بارہ فیصد حصہ کے ہم اپنی آمدنی زکوۃ میں دیتے ہیں ۔ ۵۰. ۱۲ فیصد جو دس وند کہلاتی ہے اس ہند کو اس میں فرقے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے جسے فرض سمجھ کر جماعت خانے میں دیتے ہیں۔ ان کا بولتا قرآن حاضر امام کی صورت میں موجود ہے روزہ نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ روز واصل میں کان، آنکھ اور زبان کا ہوتا ہے ان کے خیال میں ان کا امام اس زمین پر خدا کا مظہر ہے۔ اسماعیلی عقائد : اسماعیلی خوجوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آغا خان فرقہ اسماعیلیہ کے حاضر امام ہیں اور ان کو حضرت علی سے روشنی ملتی ہے اور سب آئمہ کا سلسلہ حضرت علی تک پہنچاتے ہیں۔ | |||
امامی اسماعیلی ایران میں اللہ عطامی کہلاتے ہیں۔ | |||
ایشیائے متوسط اور چینی ترکستان میں مولائی کہلاتے ہیں۔ | |||
شام اور مصر اور شمالی افریقہ میں اسماعیلیہ کہلاتے ہیں شام میں اُن کو دروں بھی کہتے ہیں افغانستان میں مولائی بھی کہلاتے ہیں۔ | |||
۴۔ ہندوستان میں بول چال میں بدخشانی کہلاتے ہیں یہ تمام معتقدین آغا خان کو نذریں دیتے ہیں۔ | |||
دسواں: آغا خانی لوگ اپنی نذریں آغا خان کو دیتے ہیں یہ اپنی آمدنی میں سے بارہ فیصد حصہ آغا خان کو دیتے ہیں اور اس نذر کو دو سونگ ( پیداوار کا دسواں حصہ یا | |||
عشر) کے نام سے اپنی آمدنی کا آٹھواں حصہ آغا خان کو ادا کرنے کے پابند ہیں دو سونگ کو ان کے مذہب میں کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ اُن کی مقدس کتاب گنان میں اس کی ہدایت ہے یہ خوجوں کا فرض ہے کہ اپنے امام کو نذریں دیں گستان میں اور بہت سے بیانات ہیں۔ آغا خانی اپنی نذریں اپنے حاضر امام کو اس لیئے دیتے ہیں کہ اس جہان میں سرسبز ہوں آغا خانی لوگ آغا خان کو خدا کا قائم مقام تصور کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن میں حضرت علی کا نور ہے جو امام زندہ اور موجود ہے اس کو حاضر امام کہتے ہیں۔ گنان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ حاضر امام کی پیشکش میں کسی کو حصہ دار نہ بنایا جائے ان کے ہاں دُعا میں تمام اماموں کے نام پڑھے جاتے ہیں اور تمام پیروں کے نام لئے جاتے ہیں۔ خوبے موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو امام مانتے ہیں اور وہ دُنیا کے کئی حصوں میں پیر بھی کہلاتے ہیں ۔ ولادت اور شادی کے مواقع پر بھی نذر دی جاتی ہے نذرو نیاز کا ایک اور بھی طریقہ ہے جو سر بندی کہلاتا ہے۔ یعنی کوئی آدمی اپنی جائیداد حاضر امام کو بیہ کر دے خو جے ان رسومات بندگی کو بہت تختی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اول سفرہ : کی رسم میں چند چیزوں کا نیلام ہے جس کے لئے جماعت خانے کے ممبر بولی دیتے ہیں اور پھر بڑی بڑی قیمتوں سے وہ چیز میں خریدی جاتی ہیں پھر اس رقم سے آغا خان ( حاضر امام ) کے لئے چیزیں خریدی جاتی ہیں۔ کھادا خورا: کی رسم بھی ہے جس کا مقصد کھانے پینے کی اشیاء میں سے آنا خان (حاضر امام) کو چندے کے طور پر ادائیگی کرنا ہے دعوت جس قسم کی بھی ہو ایک حصہ آنا خان ( حاضر امام ) کے لئے مخصوص ہوتا ہے اُس خوراک کو جماعت خانہ میں لا کر نیلام ایک | |||
کر دیا جاتا ہے اور اس سے جو آمدنی وصول ہوتی ہے و انا ان محاضرام لکھا۔ | |||
جاتی ہے اسماعیلی جھولی کے نام سے حاضر امام کو نذرانے پیش کرتے ہیں۔ دس اوتار : دس اوتار سے مراد ہے کہ خدا نے دس جسم اختیار کئے تھے اور گواہونے | |||
بھی کہا کہ میں علی اللہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ علی میں خُدا کا نور ہے اور حضرت علی دسویں اوتار ہیں ۔ حاضر امام آغا خان کا نام دُعا میں سترہ دفعہ لیا جاتا ہے اور ہر دفعہ جب اُن کا نام لیتے ہیں تو سجدہ کیا جاتا ہے۔ | |||
(1) یہ بارہ اماموں کی زیارت نہیں پڑھتے ۔ | |||
(۲) حضرت علی کے لیئے دس اوتار ہوئے ہیں ۔ | |||
(۳) کوئی خوجہ حج کرنے اور کاظمین اور سامرہ کو نہیں جاتے۔ | |||
(۴) قرآن کو بحیثیت مسلمان ہونے کے مذہبی کتاب جانتے ہیں۔ | |||
(۵) اپنے آپ کو دوسرے فرقے کے مسلمان سمجھتے ہیں۔ | |||
(1) قرآن پر عمل اور تلاوت بھی کرتے ہیں۔ | |||
(۷) نماز سال میں دو دفعہ پڑھ سکتے ہیں۔ | |||
لوگ کسی آب شفا: حاضر امام اپنا ہاتھ مبارک پانی میں رکھ کر دعا کرتے ہیں جس سے وہ پانی پاک ہو جاتا ہے۔ جو عقیدت مندوں کو دیا جاتا ہے اور آغا خانی کا | |||
دوسرے شخص کو سوائے آغا خان کے متبرک نہیں سمجھتے۔ | |||
جماعت خانہ آغا خانی فرقے کے لوگوں کی عبادت گاہ یا مسجد کو جماعت خانہ کہتے ہیں۔ مسجد بیت الاسلام" کے مکان کی مثال ہے یہ عمارت جماعت خانہ عام طرز کی عمارت ہوتی ہے اور ہر بڑے شہر میں ایک بڑا جماعت خانہ ہوتا ہے ۔ جس کے ماتحت شہر کے تمام چھوٹے جماعت خانے ہوتے ہیں چھونے جماعت خانہ کو | |||
در خانہ کہا جاتا ہے۔ | |||
== پیر == | |||
پیر: اسماعیلی موجوں میں پیر بھی ہوتے ہیں پیر کا کام یہ ہے کہ امام کی عدم موجودگی میں لوگوں کو امامی اسماعیلی بنائے حاضر امام پیر کو مقرر کرتا ہے۔ آغا خانی خوجوں کی مقدس کتا بیں : اسماعیلی خوجوں کی کتب زیادہ تر فاری زبان میں ہے۔ گنان اور دسا اوتار یہ دو کتا ہمیں مقدس کتا ہیں ہیں۔ دس او تا رگنان مومن چنتاونی و غیرہ پیر صدرالدین اور حسن کبیر الدین اور دیگر اسماعیلی کی طرف منسوب کی جاتی ہیں عموماً گجراتی زبان میں ہیں اس لئے بمبئی کے علاؤہ دوسرے لوگ ان مضامین سے بہت کم واقف ہیں۔ کیونکہ یہ اپنی کتب اور مذہبی عقاید کو خفیہ رکھتے ہیں۔ آج کل اس جماعت کے روحانی پیشوا اور حاضر امام پرنس کریم آغا خان ہیں۔ دُعائے اسلام اسماعیلی فرقے کی بنیادی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے اس کا تعلق ظاہری علم یعنی عملی عبادات سے ہے۔ اسماعیلیوں کو زبانی حفظ کرنے کا حکم بھی ہے زبانی یاد کرنے والے کو خطیر انعامات بھی ملتے ہیں۔ دوسری کتاب تاویل دعائم اسلام ہے اس کے احکامات اور فرائض کی باطنی تاویلات کا بیان ہے یہ کتاب اسماعیلی تاویلات کی اہم ترین بنیاد ہے۔ آغا خانی اور بوہرے: ہندوستان میں اسماعیلی خوجوں ( آغا خانیوں ) اور ہے ان کے عقائد مرزا محمد سعید دہلوی کی کتاب مذہب اور باطنی بوہروں پر مشتمل ۔ تعلیم کے حوالے سے درج کرتے ہیں ۔ حضرت علی وشنو تھے تو حضرت محمد نے دید و یاس کا قالب اختیار کیا جب حضرت علی اپنی معروف عام حیثیت میں نمودار ہوتے تو و و وشنو کا دسواں اوتار (نئی کلنگی ) تھے۔ موجودہ آغاخان تک تمام نزاری ائمہ حضرت علی کا اوتار تصور کیے جاتے ہیں خوجے اور کسی ہندو انہیں اپنا معبود تصور کرتے ہیں۔ یہ یہ لوگ آواگون یا تناسخ کے بھی قائل ہیں اور قیامت جنت دوزخ کے بھی مزار یہ فرقہ کا عموماً یہ مسلک رہا ہے۔ اس فرقے کی روایات کی مستند ترین کتاب کا نام اصول کافی کتاب ہے۔ یہ عربی زبان میں ہے اس کا اردو میں ترجمہ سید ظفر حسن صاحب امروہوں نے الشافی کے نام سے شائع کیا ہے۔ | |||
== تصوف == | |||
تصوف :شیعہ حضرات تصوف کے قائل نہیں ان کے عقیدہ کی رُو سے اس قسم کا غیر مکتب اور براہ راست علم ان کے ائمہ تک محدود ہے ان کے ہاں صوفی ہوتے ہیں نہیں ۔ اہل تصوف کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ باطنی علم اللہ نے حضرت علی کو عطا فرمایا تھا اور آپ سے آگے سینہ بسینہ منتقل ہوتا چلا گیا۔ واضح رہے کہ حضرت علی سے جن حضرات کو یہ علم منتقل ہوا ان سے مراد شیعہ حضرات کے ائمہ نہیں بلکہ سنیوں کے صوفیاء بھی ہیں۔ | |||
== اسماعیلی تنظیم == | |||
اسماعیلی تنظیم : اسماعیلیہ فرقہ کی ابتدا میں صرف تین تنظیمی مدارج تھے۔ امام ، داعی اور مستجیب بعد میں سات ہو گئے۔ | |||
(۱) امام (۲) حجت جو امام اور جماعت کے درمیان واسطہ ہوتا ہے تزاری عقیدہ کی روح سے پیر اور حجت ایک ہی منصب کے دو مختلف نام ہیں حجت کو وہ امام کا مظہر اور اس کی روحانی اور الہی صفات کا شریک تصور کرتے ہیں جس طرح موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو ایک علاقہ میں امام کہتے اور دوسرے میں وہ | |||
پیر بھی کہلاتے تھے۔ (۳) ذو مصہ جو حجت سے اپنا علم حاصل کرتا ہے۔ | |||
(۳) والی اکبر یا وافی الدعائہ جو امور دعوے کا نگران اور سب داعیوں کا سردار خیال کیا جاتا ہے ۔ (ف) راقی مازون جن کو عوام الناس کی دینی تربیت اور طالبین سے میثاق لے کر جماعت میں داخل کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ دعوت جدید میں دو درجوں کا اضافہ ہو گیا ہے خدائی اور لاسک (لا سرک کا مطلب ہے تو آموز اور میرسیدی ہے لا سک چھٹے درجے کے لوگ ہوتے ہیں ) فدائی ساتویں درجے کے دو لوگ ہیں جو اپنے حاکموں پر اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لیئے ہر وقت تیار رہتے ہیں لا سک وہ لوگ ہیں جو فدائی بنے کے امیدوار ہوتے ۔ اس موجودہ دور میں میں امام وداعی ، سوسن کے علاوہ اور کسی درجے کا ذکر نہیں سنتے۔ | |||
نزاری فرقے کا عموما یہ مسلک رہا ہے کہ جس ملک میں وہ سکونت پذیر ہوتے ہیں اس ملک کی شریعت اختیار کر لیتے ہیں ترکستان میں وہ حنفی فقہ کے مقلد ہیں اور ایران میں اثنا عشری فقہ کے پابند ہیں ۔ نزاری اماموں کی فہرست ۳۸ ہے اور سلطان حمد شاہ ( آغا خان سوئم ) نزاری فرقہ کے ۳۸ ویں امام ہیں ۔ ان سب کو نزاری فرقہ اپنا حاضر امام تصور کرتا ہے۔ نزاری عقیدہ یہ ہے کہ ان کے خاندان میں امامت ہمیشہ جاری رہے گی۔ | |||
(۱) تاریخ اسلام ( جلد ۴۳) شاہ معین الدین، مکتبہ رحمانی اردو بازارلا ہوں ۔ | |||
(۲) مذہب الاسلام مولوی نجم الغنی ، نبیاء القرآن پبلی کیشنز لا ہوں ۔ | |||
(۳) ۷۳ فرقے کیسے بنے؟ موسی خان جالانز فی فکشن ہاؤس مزنگ لاہور ۔ | |||
(۴) مسلمانوں کی خفیہ باطنی تحریک ، مرز اسید دہلوی ، دوست ایسوسی ایس اردو بازارلا ہو۔ | |||
(۵) ذکری فرقہ ، عبد الغنی بلوچ ، آل پاکستان مسلم ذکری انجمن کراچی۔ | |||
(1) تصوف کی حقیقت ، پرویز طلوع اسما ام ترست گلبرگ لاہور ۔ | |||
(۷) آب کوثر شیخ محمد اکرام ، ادارہ ثقافت اسلامیہ ۲۔ کلب روڈ لاہور ۔ | |||
(۸) وجه دین، سید حکیم ناصر خسرو، در الحكمته الاسماعيليهته ونزولات | |||
(۹) مذہب اور باطنی تعلیم را احمد سیدہ ہوں ، اردو مرکز لاہور۔ | |||
(۱۰ (11) تاریخ فاطمین مره مرجعه ا ل ، تا ایف ڈاکٹر زاہد علی، نفیس اکیڈین اسٹر مین روڈ کرانچ نمبر ۔ | |||
) ڈاکٹر محمد یوسف میمن ، ناثر المكتبته اليوم نيته الچند باغ میر پور خاص، شد | |||
(۱۲) اسلامی انسائیکلو پیڈیا، سیار قاسم محمود الفیصل ، اردو بازار لاہور | |||
(۱۳) وجه دین (۲) سید حکیم تا سر خیر و شر الحكمته الاسماعيليهته جوز رگلات | |||
== عقائد == | == عقائد == | ||
سلام احمد پرویز کے دادا مولوی چودھری حکیم رحیم بخش حنفی مسلک کے ایک عالم اور سلسلہ چشتیہ کے بزرگ تھے. غلام احمد پرویز [[قرآن]] کے علاوہ کسی اور علم کو نہیں مانتے نہ حدیث کو صرف ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو قرآن سے مطابق ہو وہ درست خیال کرتے ہیں باقی سب کی نفی کرتے ہیں۔ پرویزی مسلک کے نزدیک قرآن کی رو سے ایمان کی صداقت کو بلا سوچے سمجھے بغیر آنکھیں بند کر کے مان لینے کا نام نہیں کسی دعوئی کو علم و عقل کی رو سے پر کچھ کر قلب و دماغ کے | سلام احمد پرویز کے دادا مولوی چودھری حکیم رحیم بخش حنفی مسلک کے ایک عالم اور سلسلہ چشتیہ کے بزرگ تھے. غلام احمد پرویز [[قرآن]] کے علاوہ کسی اور علم کو نہیں مانتے نہ حدیث کو صرف ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو قرآن سے مطابق ہو وہ درست خیال کرتے ہیں باقی سب کی نفی کرتے ہیں۔ پرویزی مسلک کے نزدیک قرآن کی رو سے ایمان کی صداقت کو بلا سوچے سمجھے بغیر آنکھیں بند کر کے مان لینے کا نام نہیں کسی دعوئی کو علم و عقل کی رو سے پر کچھ کر قلب و دماغ کے |